اسرائیل کی غزہ میں جارحیت جاری، جبالیہ میں فضائی حملے میں 40 فلسطینی شہید
غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ جاری ہے اور اسرائیلی افواج نے حماس کے خلاف کارروائی کے لیے غزہ کی پٹی کے شمال میں واقع جبالیہ کے گرد گھیرا تنگ کر تے ہوئے کارروائی میں مزید 40 فلسطینیوں کو شہید کردیا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ جبالیہ میں الفلوجہ کے قریب اسرائیلی حلموں سے کم از کم 11 افراد شہید ہوئے، دوسری جانب جنوب میں مشرقی خان یونس میں بنی سُہیلہ میں اسرائیلی میزائل نے ایک گھر کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 10 افراد شہید ہوئے۔
آج صبح غزہ شہر کے مضافاتی علاقے سبرا میں اسرائیلی فضائی حملوں سے تین گھر تباہ ہو گئے، مقامی سول ایمرجنسی سروس کا کہنا ہے کہ انہوں نے جائے وقوعہ سے دو افراد کی لاشیں برآمد کی ہیں جبکہ 12 دیگر افراد کی تلاش جاری ہے جن کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ وہ حملے کے وقت گھروں میں ہی موجود تھے۔
وسطی غزہ کے نصیرات کیمپ میں ایک گھر پر ہونے والے حملے میں پانچ افراد شہید ہو گئے۔
جبالیہ 10 دن سے اسرائیلی جارحیت کا مرکز بنا ہوا ہے، اسرائیل فوج اب شمال کے ان علاقوں میں واپس آ رہی ہے جہاں انہوں نے سال بھر سے جاری اس جنگ کے ابتدائی ایام میں بمباری کی تھی۔
اس آپریشن نے فلسطینیوں اور اقوام متحدہ کے اداروں میں تشویش پیدا کر دی ہے جن کا ماننا ہے کہ اسرائیل شمال کے علاقوں میں رہنے والوں کا صفایا کرنا چاہتا ہے تاہم اسرائیل نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج شمالی غزہ کو غزہ کی پٹی کے باقی حصوں سے مکمل طور پر الگ کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شمالی غزہ میں جاری مظالم کے علاوہ خاندانوں کو خوف، اپنے پیاروں سے جدائی اور تھکاوٹ کا سامنا ہے، اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ لوگوں کو مزید خطرات کا سامنا کیے بغیر محفوظ مقام پر باآسانی منتقل کیا جائے۔
غزہ میں ہلال احمر کے ذیلی وفد کے سربراہ ایڈریان زمرمین نے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے مزید کہا کہ بیماروں اور معذوروں سمیت متعدد افراد ملک نہیں چھوڑ سکتے اور وہ بین الاقوامی انسانی قوانین کے تحت محفوظ ہیں، لہٰذا اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے اور بے گھر ہونے والے ہر شخص کو محفوظ طریقے سے گھر لوٹنے کا حق حاصل ہے۔
اسرائیلی فوج نے اب جبالیہ کیمپ کا محاصرہ کر لیا ہے اور قریبی بیت لہیا اور بیت حنون قصبوں میں ٹینک بھیجے ہیں، تاکہ حماس کا خاتمہ کیا جائے جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ ان قصبوں میں دوبارہ اکٹھا ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑکر جنوبی غزہ میں محفوظ مقامات پر چلے جائیں جبکہ فلسطینی حکام اور اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ میں اب کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ انخلا کے احکامات کا مقصد حماس کے جنگجوؤں کو عام شہریوں سے الگ کرنا ہے اور اس تاثر کی نفی کی کہ وہ جبالیہ یا دیگر شمالی علاقوں سے شہریوں کو نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
حماس کے مسلح دھڑے کا کہنا ہے کہ حماس جبالیہ اور اس کے گرد و نواح میں اسرائیلی فورسز کے ساتھ لڑائی میں مصروف ہے۔
گزشتہ روز اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے شمالی غزہ میں بڑی تعداد میں شہریوں کی شہادت پر کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ غزہمیں رہنے والے 23 لاکھ میں سے نصف سے زائد شمالی علاقے میں رہائش پذیر ہیں اور اسرائیل کی شدید بمباری کی وجہ سے ہزاروں رہائشی اپنے گھر بار چھوڑ کر یہاں سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔
اقوام متحدہ کے کے اندازے کے مطابق اب وہاں تقریباً 4 لاکھ افراد باقی رہ گئے ہیں۔
اسرائیل نے حماس کے خلاف کارروائی کا آغاز 7 اکتوبر کو اسرائیل پر عسکریت پسند گروپ کے حملے کے بعد کیا تھا جس میں 1200 افراد شہید اور 250 کے قریب افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
اس کے بعد اسرائیلی نے غزہ پر وحشیانہ بمباری اور زمینی کارروائی کا آغاز کیا تھا اور غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کے مطابق ایک سال سے زائد عرصے سے جاری ان کارروائیوں میں اب تک 42 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔