• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:22pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:45pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:47pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:22pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:45pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:47pm

26ویں آئینی ترمیم کیا ہے؟ کیا کیا تبدیلیاں کی گئی ہیں؟

ایک ماہ سے آئینی ترمیم کے لیے کوشاں حکمران اتحاد کو گزشتہ رات بالآخر کامیابی مل گئی اور ترامیم کو سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے بھی دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔
شائع October 21, 2024

گزشتہ ماہ سے حکمران اتحاد آئینی ترامیم کے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے پارلیمان میں سیاسی جماعتوں سے بھرپور لابنگ کرنے میں مصروف تھا جہاں ان ترامیم میں بنیادی توجہ عدلیہ پر مرکوز تھی۔

آئینی پیکج سے مشہور 26ویں آئینی ترمیمی بل دراصل قانون سازی ہے جس کا مقصد سپریم کورٹ کے ازخود(سوموٹو) اختیارات لینا، چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت تین سال مقرر کرنا اور اگلے چیف جسٹس کی تعیناتی کا اختیار وزیر اعظم کو دینا ہے۔

20 اکتوبر کو سینیٹ سے بل کا مسودہ دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا گیا جس کے بعد اس بل کو 21 اکتوبر کی علی الصبح قومی اسمبلی سے بھی دو تہائی اکثریت منظور کر لیا گیا۔

حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) جے یو آئی-ایف کو منانے میں ناکام رہی تھی اور دونوں ایوانوں کے اجلاس ہونے کے باوجود قانون سازی نہیں ہو سکی تھی۔

گزشتہ ماہ ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں کی نمائندگی ہے اور اس کمیٹی میں مختلف تجاویز پر بحث کا سلسلہ جاری رہا تھا۔

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن ایک اہم ثالث کا کردار ادا کر رہے تھے کیونکہ حزب اختلاف نے مجوزہ ترامیم کے ساتھ ساتھ اس بل کی حمایت کے لیے ان کے قانون سازوں کو ملنے والی مبینہ دھمکیوں پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

تنازع کی ایک بڑی وجہ ایک مجوزہ وفاقی آئینی عدالت تھی، جس کی پی ٹی آئی نے مخالفت کی اور مولانا فضل الرحمٰن نے اس کے بجائے آئینی بینچ کے قیام کا مطالبہ کیا جسے اب مسودے میں شامل کر لیا گیا ہے۔

جے یو آئی(ف) نے اس ماہ کے اوائل میں پی پی پی کے ساتھ مسودے پر معاہدہ کیا تھا جس پر پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ انہیں حتمی مسودے پر ’کوئی اعتراض نہیں‘ البتہ انہوں نے ووٹنگ کے طریقہ کار کا باضابطہ بائیکاٹ کیا۔

ابتدائی مسودے میں مبینہ طور پر 56 ترامیم تجویز کی گئی تھیں تاہم تمام جماعتوں کے درمیان بھرپور غور و خوض کے بعد پارلیمنٹ میں آنے والے حتمی مسودے میں ان کی تعداد کم کر کے 22 کر دی گئی۔

اس تحریر میں ان ترامیم کی تفصیلات دی گئی ہیں جن کا بل میں ذکر کیا گیا ہے اور یہ تمام ترامیم بیک وقت نافذ ہونے والی ہیں۔

26th Constitutional Amendment Bill

چیف جسٹس کی تقرری، پارلیمانی کمیٹی کی توسیع

سب سے زیادہ ترامیم آرٹیکل 175۔اے میں کی گئی ہیں، جو سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ میں ججوں کی تقرری کے عمل سے متعلق ہے۔

آرٹیکل 175۔اے کی شق 3 میں تجویز کردہ ترامیم کے تحت ’سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج کو چیف جسٹس کے طور پر تعینات کرنے کے بجائے اب چیف جسٹس کی تقرری خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججوں میں سے ہوگی۔

اسی مقصد کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی نام زد شخص کا نام وزیر اعظم کو بھیجے گی جو مذکورہ فرد کی بطور چیف جسٹس تقرری کے لیے نام صدر کو بھیجیں گے۔

شق 8 میں پہلے کہا گیا تھا کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان دراصل سپریم کورٹ ہائی کورٹ، یا فیڈرل شریعت کورٹ کے ججوں کی ہر اسامی کے لیے اپنی نام زدگیوں کو آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے گا جو یہ نام وزیر اعظم کو بھیجے گی اور وہ صدر کو ارسال کریں گے۔

شق میں ترمیم کے تحت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اب اپنی نام زدگیوں کو براہ راست وزیر اعظم کو بھیجے گا جو انہیں تقرری کے لیے صدر کو بھیجیں گے۔

اس کے مطابق پرانی آٹھ رکنی کمیٹی سے متعلق شق 9، 10، 11، 12 اور 13 کو خارج کر دیا جائے گا۔

ایک نئی شق 3اے کے تحت، خصوصی پارلیمانی کمیٹی درج ذیل 12 ارکان پر مشتمل ہوگی، یعنی:

(i) قومی اسمبلی سے 8 اراکین اور

(ii) سینیٹ کے 4 ارکان:

بشرطیکہ جب قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے تو، کمیٹی کی کل رکنیت سینیٹ کے ارکان پر مشتمل ہو گی جن کا ذکر صرف پیراگراف (ii) میں کیا گیا ہے۔

شق 3-بی کے تحت پارلیمانی جماعتوں کو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) میں ان کی طاقت کی بنیاد پر کمیٹی میں متناسب نمائندگی حاصل ہو گی، جنہیں ان کے متعلقہ پارلیمانی لیڈر نامزد کریں گے، چیئرمین اور اسپیکر قومی اسمبلی، جو صورتحال درپیش ہو اس کے پیش نظر کمیٹی کے ارکان کا نوٹیفکیشن جاری کریں گے۔

شق 3۔سی کے تحت کمیٹی چیف جسٹس آف کی ریٹائرمنٹ سے 14 دنوں کے اندر اپنی کل رکنیت کے کم از کم دو تہائی کی اکثریت سے نام زدگی بھیجے گی۔

مسودے میں مزید کہا گیا کہ بشرطیکہ شق (3) کے تحت پہلی نام زدگی 26ویں ترمیم کے نافذ ہونے کے بعد چیف جسٹس کی ’ریٹائرمنٹ سے پہلے تین دن کے اندر‘ بھیجی جائے گی۔

ایک نئی شق 3۔ڈی کے تحت کمیشن یا کمیٹی کی طرف سے لیا گیا کوئی بھی اقدام یا فیصلہ باطل نہیں ہو گا یا اس پر اعتراض نہیں کیا جائے گا صرف اس بنا پر کہ اس میں کوئی اسامی خالی ہے یا اس کے کسی بھی اجلاس سے کوئی رکن غیرحاضر ہے۔

شق 3۔ای میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی کے اجلاس ان کیمرا ہوں گے اور اس کی کارروائی کا ریکارڈ رکھا جائے گا۔

شق 3۔ایف کے مطابق، آرٹیکل 68 کے احکامات کا اطلاق کمیٹی کی کارروائیوں پر نہیں ہو گا جو قانون سازوں کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی جج کے طرز عمل پر بحث کرنے سے روکتی ہیں۔

شق 3۔جی کے مطابق کمیٹی اپنے طریقہ کار کو مربوط کرنے کے لیے قواعد و ضوابط بنا سکتی ہے۔

اس کے بعد، آرٹیکل 175۔اے کی شق 15، 16 اور 17 جو کہ سابقہ ​​آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی سے متعلق تھیں اور جنہیں شق 3ای، 3ایف، اور 3جی کے ساتھ پڑھا جاتا تھا، انہیں آئین سے خارج کردیا جائے گا۔

آرٹیکل 175اے کی شق (4) کے لیے جس میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو اپنے طریقہ مربوط کرنے کے لیے قواعد وضع کرنے کا اختیار دیا گیا تھا، اب اس نئے مسودے میں تجویز کیا گیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اب ججوں کی تقرری کے لیے جانچ، تشخیص اور فٹنس کے طریقہ کار اور معیار سمیت اپنے طریقہ کار کو منضبط کرنے کے لیے قواعد وضع کر سکتا ہے۔

شق نمبر 14 سے لفظ ’یا ایک کمیٹی‘ کو خارج کر دیا جائے گا، جس میں پہلے لکھا گیا تھا کہ کمیشن یا کمیٹی کی جانب سے اٹھایا گیا کوئی قدم یا کیا گیا کوئی فیصلہ باطل نہیں ہو گا یا اس پر اعتراض نہیں کیا جائے گا صرف اس بنا پر کہ اس میں کوئی اسامی خالی ہے یا اس کے کسی بھی اجلاس سے کوئی رکن غیرحاضر رہا۔

مزید عدالتی اصلاحات کے تحت چیف جسٹس کی مدت ملازمت کو زیادہ سے زیادہ تین سال تک محدود کر دیا گیا ہے۔

اس تبدیلی کو آرٹیکل 179 میں متعارف کرایا گیا ہے، جس میں اب یہ لکھا جائے گا کہ سپریم کورٹ کا جج 65 سال کی عمر تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا، بجز اس کے کہ وہ قبل ازیں مستعفی ہو جائے یا اس دستور کے مطابق عہدے سے برطرف کردیا جائے۔

یہ شرط بھی رکھی گئی ہے کہ چیف جسٹس کی مدت تین سال ہو گی یا جب تک کہ وہ جلد استعفیٰ نہیں دے دیتے یا 65 سال کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں یا آئین کے مطابق ان کو عہدے سے برطرف نہیں کیا جاتا، ان میں سے جو بھی پہلے ہو، ساتھ ہی مزید یہ بھی کہا گیا کہ اعلیٰ جج تین سال کی مدت پوری ہونے پر اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر کے باوجود ریٹائر ہو جائیں گے۔

سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے اختیارات

آرٹیکل 184 میں ایک اور تبدیلی بھی کی گئی ہے جو سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے متعلق ہے اور اس ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ سے از خود نوٹس کے اختیارات ختم کردیے گئے ہیں۔

سپریم کورٹ اس شق کے تحت دائر کی گئی کسی بھی درخواست کے مندرجات سے باہر اپنے طور پر یا از خود نوٹس کے تحت کوئی حکم یا ہدایت نہیں دے سکتی۔

آرٹیکل 186 اے میں تبدیلی کے تحت سپریم کورٹ کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ہائی کورٹ سے کیسز اپنے پاس ٹرانسفر کرسکتی ہے۔

’اگر سپریم کورٹ یہ محسوس کرے کہ کسی کیس میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہورہے ہیں تو وہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت کیسز یا کسی درخواست کو کسی دوسرے ہائی کورٹ یا خود کو منتقل کرسکتی ہے‘۔

آرٹیکل 185 کی شق 2 جو کسی عدالت عالیہ کے صادر کردہ کسی فیصلے، ڈگری، حتمی حکم یا سزا کے خلاف اپیل عدالت عظمیٰ میں دائر کرنے سے سے متعلق ہے جس میں رقم کی مالیت 50 ہزار سے تبدیل کر کے 10 لاکھ کردی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ’اگر تنازع کے موضوع کی رقم یا مالیت ابتدائی عدالت میں اور اپیل نزاع میں بھی 10 لاکھ روپے یا ایسی دوسری رقم سے، جس کی صراحت اس سلسلے میں مجلس شوری(پارلیمنٹ) کے ایکٹ کے ذریعے کی جائے، کم نہ ہو‘۔

آرٹیکل 187 کی شق ایک (سپریم کورٹ کے حکم ناموں کا اجرا اور تعمیل) سے متعلق ہے جس میں مندرجہ ذیل شق کو شامل کیا جانا ہے، ’بشرطیکہ اس شق کے تحت کوئی ایسا حکم جاری نہ کیا جائے جو سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کے خلاف ہو اور اس پر عملدرآمد نہ کیا جاتا ہو‘۔

آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹس کے دائرہ اختیار میں تبدیلی کرتے ہوئے ایک نئی شق ون اے شامل کی جائے گی، جس سے ازخود نوٹس کے اختیارات چھین لیے جائیں گے۔

شق 1۔اے کے مطابق ’شک کو دور کرنے کے لیے ہائی کورٹ اپنے طور پر یا شق ون کے تحت دائر کی گئی کسی بھی درخواست کے مندرجات سے ہٹ کر اپنے از خود نوٹس کا دائرہ اختیار استعمال کرتے ہوئے کوئی حکم یا ہدایت جاری نہیں کرے گا‘۔

سپریم کورٹ میں آئینی بینچوں کی تشکیل

عدالتی بینچوں کی تشکیل کے لئے آئین میں ایک نیا آرٹیکل 191۔اے (سپریم کورٹ کی آئینی بنچ) شامل کیا گیا ہے۔

شق نمبر1 میں کہا گیا ہے ’سپریم کورٹ کے آئینی بینچ ہوں گے جن میں سپریم کورٹ کے ججز شامل ہوں گے، جن کی نامزدگی اور مدت کا تعین جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا جب کہ آئینی بینچوں میں تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے ججز کی برابر نمائندگی کو یقینی بنایا جائے گا۔

آرٹیکل 191 اے کی شق 2 اور شق 1 کے تحت نامزد ججوں میں سب سے سینئر جج آئینی بینچوں کا پریزائیڈنگ جج ہوگا۔

شق 3 آئینی بینچوں کے علاوہ سپریم کورٹ کے بینچوں کو ’سپریم کورٹ کو تفویض کردہ مندرجہ ذیل دائرہ اختیارات ’ کو محدود کرتا ہے:

(الف) آرٹیکل 184 کے تحت سپریم کورٹ کا اصل دائرہ اختیار؛

(ب) آرٹیکل 185 کی شق 3 کے تحت سپریم کورٹ کے اپیلیٹ دائرہ اختیار میں، جہاں آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ کا کوئی فیصلہ یا حکم کسی قانون کی آئینی حیثیت یا آئین کی تشریح کے بارے میں قانون کے سوال کو شامل کرتا ہے؛

(ج) آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کا مشاورتی دائرہ اختیار؛

شق نمبر4 کے تحت شق 2 کے مقاصد کے لیے کم از کم 5 ججوں پر مشتمل بینچ ہو، جسے پریزائیڈنگ جج اور شق 1 کے تحت نامزد ججوں میں سے 2 سینئر ترین ججوں پر مشتمل کمیٹی نامزد کرے گی، اور یہ بینچ ایسے معاملات کی سماعت کرے گا۔

آرٹیکل 191 اے کی شق 5 کے مطابق 26ویں ترمیم کے نفاذ سے قبل سپریم کورٹ میں دائر کیے گئے فیصلوں کے خلاف تمام درخواستیں، اپیلیں یا نظرثانی کی درخواستیں، جن پر شق 2 لاگو ہوتی ہے، اب آئینی بینچوں کو منتقل کردی جائیں گی اور صرف شق 3 کے تحت تشکیل دیے گئے بینچ ان کی سماعت اور فیصلہ کریں گے۔

شق نمبر6 کے ذریعے شق نمبر1 میں نامزد ججوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ آئینی بینچوں کے طرز عمل اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قواعد وضع کرسکتے ہیں، ’چاہے آئین میں کچھ بھی موجود ہو لیکن قانون کے تابع ہو‘۔

ہائی کورٹس(عدالت عالیہ) میں آئینی بینچ

ہائی کورٹس میں آئینی بینچ کے قیام کے لیے ایک نیا آرٹیکل 202 اے بھی آئین میں شامل کیا گیا ہے۔

اس آرٹیکل کی شق 1 میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کے آئینی بینچ ہوں گے جن میں ہائی کورٹ کے ججز کو شامل کیا جائے گا، ان ججز کی تعیناتی وقتا فوقتاً جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گی، جیسا کہ آرٹیکل 175 اے کی شق 5 میں بیان کیا گیا ہے۔

شق 2 کے تحت مذکورہ بالا شق 1 میں نامزد ججوں میں سب سے سینئر جج آئینی بینچوں کا سربراہ ہوگا۔

شق 3 کے مطابق آئینی بینچ کے علاوہ ہائی کورٹ کا کوئی دوسرا بینچ آرٹیکل 199 کی شق 1 کے پیراگراف (اے) اور پیراگراف (سی) کے ذیلی پیراگراف (آئی) کے تحت ہائی کورٹ کو حاصل دائرہ اختیار کا استعمال نہیں کرے گی۔

آرٹیکل 199 کا ذیلی پیراگراف (آئی) ہائی کورٹس کو یہ اختیار دیتا ہے ’وہ عدالت کے علاقائی دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے وفاق، صوبے یا مقامی اتھارٹی کے معاملات سے متعلق کام کرنے والے کسی بھی شخص کو ہدایت دے کہ وہ ایسا کچھ کرنے سے باز رہے جس کی اسے قانون اجازت نہیں دیتا، یا اسے ایسا کچھ بھی کرنے کی اجازت دے جو قانون کے مطابق کرنا ضروری ہے‘۔

پیراگراف (سی) ہائی کورٹس کو اجازت دیتا ہے کہ وہ ’کسی بھی شخص یا حکومت سمیت کسی بھی اتھارٹی کو ایسی ہدایات جاری کرے جو اس عدالت کے دائرہ اختیار میں کسی بھی علاقے میں طاقت کا استعمال یا پھر کوئی کام کررہی ہو جو آئینی بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے لازم ہو‘۔

شق 4 کے مطابق آئینی بینچوں کے سربراہ اور شق 1 کے تحت نامزد ججوں میں سے 2 سینئر ترین ججوں پر مشتمل کمیٹی کی جانب سے نامزد کردہ بینچ اس طرح کے معاملات کی سماعت کرے گا۔

شق 5 کے تحت آرٹیکل 199 کے پیراگراف (اے) اور (سی) کے ذیلی پیراگراف (1) کے تحت 26ویں ترمیم کے نفاذ سے پہلے ہائی کورٹس میں زیر التوا درخواستیں فوری طور پر آئینی بینچوں کو منتقل کردی جائیں گی، ان کیسز کی سماعت اور فیصلہ صرف شق 3 کے تحت تشکیل دی گئی بینچ ہی کریں گے۔

سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری

جوڈیشل کمیشن آف پاکستان مذکورہ بالا عدالتوں کے لیے ججوں کی تقرری کے علاوہ ہائی کورٹس کے ججوں کی کارکردگی کا جائزہ بھی لے گا۔

سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری سے متعلق آرٹیکل 175۔اے کی شق 2 میں تبدیلی کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان بطور چیئرپرسن اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے تاہم جوڈیشل کمیشن آف پاکستان بھی ’صدارتی جج‘ کی حیثیت سے بطور رکن اس عمل کا حصہ ہو گا۔

ساتھ ہی بطور رکن شامل ’چار سب سے سینئر‘ سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد کم کر کے اب تین کردی گئی ہے۔

معیار پر پورا اترنے والے رکن کو جج بنانے کا طریقہ کار بھی تبدیل کردیا گیا ہے جہاں اس میں کہا گیا تھا چیف جسٹس آف پاکستان یا سپریم کورٹ کے جج کو چیف جسٹس چار رکن ججوں کی مشاورت سے دو سال کی مدت کے لیے نامزد کرتے تھے۔

اس سے پہلے، ارکان میں سے ایک کے لیے دو سال کی مدت کے لیے پاکستان بار کونسل کی طرف سے نامزد کردہ سپریم کورٹ کا سینئر ایڈووکیٹ ہونا لازم تھا، مذکورہ وکیل کے تجربے کو اب سپریم کورٹ میں 15 سال سے کم پریکٹس نہ کرنے والے وکیل کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جسے پاکستان بار کونسل کے ذریعے نامزد کیا جانا ہے۔

وزیر قانون اور اٹارنی جنرل آف پاکستان کا سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کے لیے بطور رکن کردار برقرار رکھا گیا ہے تاہم مندرجہ ذیل ترامیم کے تحت قانون سازوں کو بھی اس عمل کا حصہ بنایا جائے گا:

(vii) سینیٹ سے دو ارکان اور قومی اسمبلی سے دو ارکان جن میں سے دو حکومتی بینچوں سے ہوں گے اور دونوں ایوانوں سے ایک، ایک رکن ہو گا جبکہ اپوزیشن بینچوں سے دو اراکین ہوں گے جہاں دونوں ایوانوں سے ایک، ایک رکن ہو گا۔ حکومتی بینچوں سے نامزدگی قائد ایوان اور اپوزیشن بنچوں سے قائد حزب اختلاف کریں گے:

قومی اسمبلی کے تحلیل ہونے کے دوران، باقی دو اراکین، اس پیراگراف کے مقصد کے لیے، اس مدت کے لیے، مذکورہ بالا طریقے سے سینیٹ سے نامزد کیے جائیں گے۔

مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے رکن کے علاوہ ایک اور رکن ’خاتون یا غیر مسلم ہو گی، جو کہ بطور ٹیکنوکریٹ سینیٹ کی رکن بننے کی اہل ہو، جسے اسپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے دو سال کی مدت کے لیے نامزد کیا جائے گا۔

مسودے میں اسی شق کی مزید وضاحت شامل کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر پریذائیڈنگ جج چیف جسٹس ہے یا سپریم کورٹ کے تین سب سے سینئر ججوں میں سے ایک ہے تو جو جج ان کے بعد سب سے زیادہ سینئر ہو گا، وہ کمیشن کا رکن بن جائے گا۔

آرٹیکل 177 میں ترمیم کے تحت، جو سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری سے متعلق ہے، ان کے تجربے کے درج ذیل معیارات کو خارج کر دیا جائے گا: بشمول کسی عدالت عالیہ کا جج رہا ہو جو یوم آغاز سے قبل کسی وقت بھی پاکستان میں موجود تھی۔

ہائی کورٹ ججز کی تقرری

آرٹیکل 175 اے کی مجوزہ ترامیم میں آئینی بینچز کی تشکیل کو شامل کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے ججز کی تقرری کے طریقہ کار میں کچھ قابلِ ذکر تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

آرٹیکل کی شق 5 (ii) کے تحت ہائی کورٹ ججز کی تقرری کے لیے ’متعلقہ ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج‘ کے بجائے ’متعقلہ ہائی کورٹ کے آئینی بینچ کے سربراہ‘ کو شامل کیا جائے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اب ججوں کی تقرری میں آئینی بینچ کے سربراہ کی رائے اہم ہوگی۔

اس کے مطابق وہ پرانا اصول ختم ہوگیا جو پیراگراف (ii) میں درج تھا جس کے تحت سینئر ترین جج جوڈیشل کمیشن پاکستان کا رکن نہیں ہونا چاہیے جبکہ اس کے ساتھ یہ وضاحت شامل کی گئی ہے کہ ’اگر ہائی کورٹ کی آئینی بینچز کا سربراہ ہی اس ہائی کورٹ کا چیف جسٹس ہے تو ایسے میں سینیارٹی لسٹ میں دوسرے نمبر پر موجود جج کمیشن کا رکن بنے گا‘۔

اس سے قبل پیش کیے جانے والے مسودے میں یہ شق کہتی تھی کہ ’اگر کسی وجوہات کی بنا پر متعلقہ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس دستیاب نہیں تو اس صورت میں چیف جسٹس آف پاکستان، کسی سابق چیف جسٹس یا اس کورٹ کے سابق جج کو پیراگراف (ii) کی شق 2 میں درج 4 رکنی ججز کمیشن کی مشاورت سے متبادل کے طور پر پیش کریں گے‘۔

اب یہ شق کچھ یوں ہوچکی ہے، ’اگر کسی وجوہات کی بنا پر متعلقہ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس دستیاب نہیں ہے تو اس کے متبادل کے طور پر کسی سابق چیف جسٹس یا اس عدالت کے سابق جج کو کمیشن کے ذریعے نامزد کیا جائے گا‘۔

آرٹیکل 193 میں ترمیم کے تحت ہائی کورٹ کے جج کی کم از کم عمر 45 سال سے کم کر کے 40 سال کر دی گئی ہے۔

ترمیم کے بعد شق 2 اب کچھ یوں ہے، ’کسی شخص کو ہائی کورٹ کا جج مقرر کرنے کے لیے اس کا پاکستان کا شہری ہونا اور عمر 40 برس سے کم ہونا ضروری ہے‘۔ مزید برآں،

(i) وہ کم از کم 10 سال کی مدت تک ہائی کورٹ کا وکیل رہ چکا ہو

(ii) یا، وہ پاکستان میں کم از کم 10 سال کے لیے عدالتی عہدہ سنبھال چکا ہو۔

ان معیارات کو ختم کردیا گیا جیسے، کوئی صرف اس صورت میں ہائی کورٹ کا جج بن سکتا ہے جو آئین کے اس پیراگراف کے تحت کم از کم 10 سال سے سول سروس کا ممبر ہے یا رہ چکا ہو اور اس نے 3 سال یا اس سے زائد پاکستان میں ڈسٹرکٹ جج کے طور پر اپنی ذمہ داریاں انجام دی ہوں’۔

شق 6 کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور اس کے سینئر ترین جج کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تقرری کے عمل میں اب درج ذیل کو بھی بطور ممبر شامل کیا جائے گا،

(iii) ہائی کورٹ میں 15 سال یا اس سے زائد عرصے تک پریکٹس کرنے والا وکیل جسے اسلام آباد بار کونسل کی طرف سے دو سال کی مدت کے لیے نامزد کیا جائے گا۔

(iv) اور وزیراعظم کی جانب سے نامزد کیا جانے والا وفاقی وزیر۔

ہائی کورٹ ججز کی کارکردگی کا جائزہ

آرٹیکل 175 اے میں مندرجہ ذیل شقیں شامل کی جائیں گی۔

شق 18 — شق 2 میں کمیشن ہائی کورٹ ججز کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لے گا۔

شق 19 — اگر کمیشن کو کسی ہائی کورٹ جج کی کارکردگی ناقص لگتی ہے تو وہ متعلقہ جج کو بہتری لانے کے کے لیے کچھ وقت دے گا۔ کمیشن اپنے مطابق وقت دے گا اگر اس مقرر کردہ وقت کے گزرنے کے بعد بھی جج کی کارکردگی اطمینان بخش نہ لگی تو کمیشن اس جج کی رپورٹ کو سپریم جوڈیشل کونسل بھیج دے گا۔

شق 20 — کمیشن کو اجازت ہوگی کہ وہ شق 18 اور 19 کے مقاصد کے حصول کے لیے اپنے مطابق مؤثر معیارات مقرر کرسکتا ہے۔

شق 21 — اس آرٹیکل کے مقاصد کے لیے اور کمیشن کے بنائے گئے قواعد کے تحت، کمیشن کا اپنا ایک سیکریٹریٹ ہوگا جس کی سربراہی ایک سیکریٹری کرے گا اور اس میں ضرورت کے مطابق دیگر افسران اور عملے کو شامل کیا جائے گا۔

شق 22 — کمیشن کے ایک تہائی ممبران (جیسا کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کی شق 2 میں بتایا گیا ہے) چیئرپرسن کو تحریری درخواست کے ذریعے اجلاس بلانے کا مطالبہ کرسکتے ہیں جو ’درخواست موصول ہونے کے 15 دنوں سے بھی کم وقت میں کمیشن کا اجلاس بلانے کا تابع ہوگا‘۔ اگر مقرر کردہ مدت میں چیئرپرسن اجلاس بلانے میں ناکام رہتا ہے تو سیکریٹری 15 دن کی مدت ختم ہونے کے سات دنوں کے اندر اجلاس بلائے گا۔

شق 23 — سپریم کورٹ جج کی کرسی خالی ہے یا خالی ہونے کا امکان موجود ہے تو شریعت کورٹ کا چیف جسٹس، ہائی کورٹ کا چیف جسٹس، یا شریعت کورٹ یا ہائی کورٹ کا کوئی بھی جج یا پھر کمیشن کا کوئی بھی رکن ’اس عہدے کے لیے اپنی نامزدگی پیش کرسکتا ہے‘۔

صحت مند ماحول

اس بل میں ’نیا آرٹیکل 9 اے‘ شامل کیا گیا ہے۔ اس کے تحت،

’9 اے: صاف اور صحت مند ماحول — ہر فرد کو ایک صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول مین رہنے کا حق حاصل ہوگا۔

فورتھ شیڈول

فورتھ شیڈول کے پہلے حصے کے دوسرے پوائنٹ میں ان تمام کی وضاحت ہوگی جن میں ’فوج، بحریہ اور فضائیہ یا کنٹونمنٹ کی مقامی حکومتوں میں لوکل ٹیکسز، فیس، خراج، چارجز اور ٹولز۔ کنٹونمنٹ اتھارٹیز کے علاقوں میں آئین اور اختیارات، ایسے علاقوں میں مکانات کی رہائش کا ضابطہ اور حد بندی‘، شامل ہیں۔

یہاں ’لوکل ٹیکسز، فیس، خراج، چارجز اور ٹولز‘ کا اضافہ کیا گیا ہے۔

دیگر ترامیم

آرٹیکل 208 جو عدالتوں کے افسران اور ملازمین کی تقرری سے متعلق ہے، اس میں کی گئی تبدیلی کے بعد اب سپریم کورٹ اور شریعت کورٹس کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو اجازت دے گا کہ وہ اس مقصد کے لیے اصول بنا سکتے ہیں۔

آرٹیکل 48 کی شق 4 (جو صدر کے کسی تجویز پر عمل کرنے سے متعلق ہے) ترمیم کے بعد اب کہتی ہے کہ ’کابینہ یا وزیراعظم کی جانب سے صدر کو دیے گئے کسی مشورے یا تجویز پر کوئی اتھارٹی، عدالت یا ٹربیول سوال نہیں اٹھائے گا‘۔

اس سے قبل پیش کیے جانے والے مسودے میں صدر اور وزیراعظم کے ساتھ ’وزیر یا وزیر مملکت‘ کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

آرٹیکل 81 کے پیراگراف بی میں کی گئی تبدیلیوں کے تحت فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے لیے جانے والے اخراجات میں اب جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور سپریم جوڈیشل کونسل کے ’افسران اور عملے کے معاوضے سمیت انتظامی اخراجات‘ بھی شامل ہوں گے۔

ایک اور پیراگراف (da) میں کہا گیا ہے کہ ’قومی اسمبلی، سینیٹ، صوبائی اسمبلیوں اور مقامی حکومتوں کے انتخابات کے انعقاد کے لیے درکار رقم‘، کو بھی اس میں شامل کیا جائے گا۔

آرٹیکل 215 میں کی گئی ترمیم کے تحت چیف الیکشن کمیشنر اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے رکن کو اجازت ہوگی کہ وہ ’اگلے فرد کی تعیناتی تک عہدے پر برقرار رہے‘۔ یعنی اس کے لیے عہدے کی مقررہ مدت ختم ہونے کی کوئی پابندی نہیں۔

آرٹیکل 255 عہدے کے حلف سے متعلق ہے، جو کہتا ہے کہ ’اگر آئین کے تحت کسی مخصوص شخص سے حلف اٹھانا ضروری ہے اور کسی وجہ سے ایسا ممکن نہیں تو حلف لینے کے لیے شخص کو متعلقہ صوبے کی ہائی کورٹ کا چیف جسٹس نامزد کرسکتا ہے جبکہ دیگر معاملات میں یہ نامزدگی چیف جسٹس آف پاکستان کریں گے‘۔

آرٹیکل 259 جو صدر مملکت کی جانب سے دیے جانے والے اعزازات سے متعلق ہے، اس میں سائنس، ٹیکنالوجی، میڈیسن، آرٹس یا عوامی خدمت’ کو اب ’نرسنگ‘ سے تبدیل کردیا گیا ہے۔