تنازعات میں اُلجھی پاکستانی ٹیم کا مشکل ترین دورہ آسٹریلیا
آسٹریلیا کے سرسبز و شاداب میدانوں میں موسم گرما کے سورج کی کرنیں اگرچہ ابھی تک اس قدر گرم نہیں ہوئی ہیں کہ پچ پر نمی سوکھ سکے۔ ہوا میں ہلکی سی خنکی ہے اور میلبرن کا موسم قدرے سرد ہے۔ تاہم کرہِ ارض کے اس خطے میں کرکٹ کے لیے یہ انتہائی موزوں موسم سمجھا جاتا ہے کیونکہ جیسے جیسے وقت آگے بڑھے گا، آسٹریلیا میں سورج آگ برسانے لگے گا۔
پاکستان ٹیم آسٹریلیا کے مختصر دورے پر میلبرن پہنچ چکی ہے جہاں وہ تین ایک روزہ میچز اور تین ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے گی۔ 4 نومبر کو پاکستان آسٹریلیا کے خلاف اپنا پہلا ایک روزہ میچ میلبرن میں کھیلے گی جس کے بعد بقیہ دو میچز ایڈیلیڈ اور پرتھ میں کھیلے جائیں گے۔
پاکستان ٹیم کا دورہِ آسٹریلیا ہمیشہ مشکل اور مایوس کُن ہوتا ہے۔ آسٹریلیا میں تیز اور باؤنسی وکٹوں پر بیٹنگ کرنا مشکل کام ہوتا ہے۔ آسٹریلیا اپنے ہوم گراؤنڈ کا ہمیشہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ پاکستان کے دورے میں ہمیشہ تیز وکٹ بنائی جاتی ہیں جن پر اکثر پاکستان بیٹنگ لائن لڑکھڑا جاتی ہے۔ لیکن بہت سے ایسے میچز بھی ہیں جب پاکستانی بلے بازوں نے شاندار کارکردگی دکھائی اور میچ کو جیت کے بہت قریب لے گئے لیکن ٹیسٹ کرکٹ میں چار فتوحات باؤلرز کے دم پر ملی ہیں۔
عمران خان، سرفراز نواز، وسیم اکرم اور مشتاق احمد وہ مرد میدان رہے ہیں جنہوں نے تاریخ میں پاکستان کی جیت کا کھاتہ خالی نہیں رہنے دیا لیکن کئی ٹیسٹ میچ ایسے بھی تھے جب بلے بازوں نے جیت کی بازی بہت قریب جا کر ہاری۔
اسد شفیق کی برسبین ٹیسٹ کی تاریخی اننگز نے پاکستان کو جیت کے انتہائی قریب پہنچا دیا تھا لیکن قسمت نے یاوری نہیں کی اور قومی ٹیم چند رنز سے ہار گئی۔
حالیہ دورہ آسٹریلیا اور ٹیم
پاکستان ٹیم کا ایک اعزاز یہ ہے کہ وہ حالتِ امن میں بھی جنگ کی کیفیت میں رہتی ہے۔ انگلینڈ کے خلاف سیریز کی جیت نے صرف ماؤف ذہنوں کو بیدار اور سوگوار چہروں کو خوش و خرم نہیں کیا ہے بلکہ بہت سے بورڈ ملازمین کی نوکریاں بھی بچالی ہیں۔
انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں جس حیران کن شکست نے ٹیم کو سرنگوں کیا تھا، اس کا جواب دینے کے لیے جب نئے چیف سیلیکٹر نے تین اہم کھلاڑیوں کو فارغ کیا تو ہر ایک حیران تھا کیونکہ وہ تین کھلاڑی ٹیم کے سب سے اہم ارکان تھے اور بیٹنگ اور باؤلنگ ان ہی کے دم سے تھی۔ اگرچہ تینوں کافی عرصہ سے کوئی ریکارڈ ساز کارکردگی پیش نہیں کرسکے تھے لیکن اپنی جگہ مضبوط تھے۔ ان کے بغیر پاکستان نے دو ٹیسٹ میچ یکے بعد دیگرے جب جیتے تو پتا چلا کہ جیت کا مہرہ تو کوئی اور ہیں، یہ تین کا سنگم نہیں!
آسٹریلیا کے دورے کے لیے جب ٹیم کا اعلان کیا جارہا تھا تو بہت سی افواہیں زبان زد عام تھیں۔ کچھ کا خیال تھا کہ بابر اعظم کے کپتانی چھوڑ دینے کے بعد متوقع کپتان محمد رضوان بھی کپتانی قبول نہیں کریں گے کیونکہ اندرونی خبریں یہ تھیں کہ بابر اعظم کو کپتانی چھوڑنے کا مشورے دینے والوں میں محمد رضوان سب سے آگے تھے۔ حالانکہ بورڈ ذرائع کے مطابق بابر نے کپتانی چھوڑی نہیں بلکہ ان سے استعفیٰ طلب کیا گیا تھا۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بدترین شکست پر بورڈ نے پورا نزلہ بابر پر گرادیا تھا۔
ون ڈے ٹیم کی کپتانی کو ایک مسئلہ بنانے کے لیے بابر چاہتے تھے رضوان قبول نہ کریں اور ایک جونیئر کے کپتان بننے کی صورت میں ٹیم میں افراتفری پھیلے گی لیکن رضوان نے بابر کو اس وقت حیران کیا جب انہوں نے بلاپس و پیش کپتانی قبول بھی کی اور اپنی پہلی پریس کانفرنس میں مستقبل کے منصوبے بھی بتادیے حالانکہ انہیں صرف دو سیریز کے لیے کپتان مقرر کیا گیا ہے۔
محمد رضوان کی قیادت میں جو ٹیم آسٹریلیا کے خلاف منتخب کی گئی ہے وہ بہ ظاہر متوازی لیکن حقیقت میں بہت کمزور ہے۔ پاکستان اوپننگ کے مسائل سے دوچار ہے۔ عبداللہ شفیق نے اگرچہ انگلینڈ کے خلاف ایک سنچری بنائی ہے لیکن ان کی باقی پانچ اننگز خراب فارم کی عکاس ہیں۔ دوسرے اوپنر صائم ایوب مسلسل ناکام ہورہے ہیں لیکن نہ جانے کس کی پرچی ہیں جو ہر میچ میں ہوتے ہیں۔ دونوں کے لیے دورہ آسٹریلیا سخت امتحان ہوگا۔
بابر اعظم ٹیم کے واحد مستند بلے باز ہیں اگرچہ وہ فارم میں نہیں ہیں لیکن وہی ٹیم کی امید ہیں۔ اگر بابر اچھی اننگز کھیل جاتے ہیں تو توقع کے برخلاف کچھ ہوسکتا ہے۔ بابر اعظم آسٹریلیا میں سنچریاں بناچکے ہیں۔ بیٹنگ لائن میں محمد رضوان اور سلمان علی آغا کچھ حد تک تجربہ کار بلے باز ہیں۔ پاکستان ممکنہ طور پر کامران غلام کو موقع دے گا تاکہ بیٹنگ مضبوط ہوسکے لیکن ایک اچھے آل راؤنڈر کی سخت کمی ہے۔
عرفان خان نیازی اور عامر جمال دونوں آل راؤنڈرز ہیں لیکن فنیشرز نہیں ہیں۔ عامر جمال نے گزشتہ دورہ آسٹریلیا میں اچھی کارکردگی دکھائی تھی البتہ عرفان خان کے لیے یہ پہلا دورہ ہے۔ ان کا انتخاب بھی بہت حیران کن ہے کیونکہ چیمپئینز کپ میں ایک سنچری بنانے کے علاوہ وہ گزشتہ ایک سال میں کوئی بڑی اننگز نہیں کھیل پائے ہیں۔
میلبرن کے پہلے میچ میں پاکستان عامر جمال پر بھروسہ کرے گا جبکہ پچ کو دیکھتے ہوئے شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ، حارث رؤف اور محمد حسنین کو کھیلنے کا موقع دے سکتا ہے۔ پاکستان ٹیم میں کوئی تجربہ کار اسپنر بھی موجود نہیں ہے۔ سیریز میں اچھے اسپنر کی کمی محسوس ہوگی کیونکہ عرفات منہاس اور فیصل اکرم دونوں نے ابھ تک انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیلی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اسپن باؤلنگ میں سلمان علی آغا، کامران غلام یا صائم ایوب پر بھروسہ کرے گا۔
سلمان اور صائم کو آسٹریلین پچ پر اپنا لینتھ سنبھالنا مشکل ہوگا۔ کیونکہ وہاں گیند کافی باؤنس کرتی ہے جس سے بیٹنگ کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔
دوسری طرف آسٹریلیا نے ون ڈے میچز کے لیے بھرپور ٹیم منتخب کی ہے۔ پیٹ کمنز کی کپتانی میں اسٹیو اسمتھ، مچل اسٹارک، جوش ہیزل ووڈ، آدم زمپا، مارونس لابوشین، گلین میکسویل سمیت ایک انتہائی مضبوط ٹیم ہے۔ تاہم ان دنوں سب سے بہترین بلے باز ٹریوس ہیڈ کو آرام دیا گیا ہے۔ چونکہ اس سیریز کے فوری بعد بھارت سے طویل سیریز شروع ہوگی، اس لیے آسٹریلیا نے ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں تمام جونیئر کھلاڑی رکھے ہیں۔ سینئرز ٹیسٹ سیریز کی تیاری کریں گے۔
پاکستان کے لیے ٹی ٹوئنٹی سیریز میں سنہرا موقع ہوگا کہ سیریز جیت لے۔ پاکستان نے ٹی ٹوئنٹی کے لیے مضبوط ٹیم منتخب کی ہے۔ اس میں سب سے دلچسپ حسیب اللہ خان کی شمولیت ہے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے حسیب کے لیے آسٹریلین وکٹیں بہت مناسب ہیں۔ دونوں ٹیموں کو دیکھتے ہوئے پاکستان ٹی ٹوئنٹی سیریز کی فاتح نظر آتی ہے۔ تاہم ون ڈے سیریز میں پاکستان ٹیم کی جیت کے امکانات بہت کم ہیں۔
گیری کرسٹن کا تنازع
دورہ آسٹریلیا کے لیے روانگی سے چند گھنٹوں قبل ہیڈ کوچ گیری کرسٹن کے استعفی نے ایک بار پھر پی سی بی کو خبروں کا عنوان بنادیا ہے۔ چند ماہ قبل بینڈ باجے کے ساتھ لائے جانے والے گیری کرسٹن کا پاکستان ٹیم کے ساتھ سفر کسی لوکل ٹرین سے بھی مختصر رہا۔ دورِ حاضر کے صف اول کے کوچ گیری کرسٹن کے ساتھ جب معاہدہ کیا گیا تو بورڈ نے اس کا اعلان ایسے کیا تھا جیسے کوہِ ہمالیہ سر کرلیا ہو جس شور و غوغا سے بادشاہ سلامت کی سواری لائی گئی تھی، اسی شور میں انہیں فارغ کردیا گیا۔
پہلے سرکار کی طرف سے الزام تراشیاں ہوئیں۔ پھر سوشل میڈیا پر خوشامدی گروپ نے گھٹیا الزام لگائے۔ کرسٹن کی معزولی کو قومی عزت کا مسئلہ بنایا گیا اور پھر کہانی کا باب بند ہوگیا۔
جس طفلانہ پن سے گیری کرسٹن کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا اس نے عالمی کرکٹ میں پاکستان کرکٹ کی خوب عزت کروائی ہے۔ ناقدین اسے غیر مستقل مزاجی کا ایک اور شاہکار کہہ رہے ہیں۔
مبینہ طور پر گیری کرسٹن ٹیم سیلیکشن پر ناراض تھے۔ وہ چند کھلاڑیوں کو ٹیم میں دیکھنا چاہتے تھے اور کپتانی کے لیے بھی کسی اور کو بہتر سمجھتے تھے۔ انہیں بورڈ افسران کے رویہ پر بھی اعتراض تھا۔
بہرحال بورڈ نے سرعت کے ساتھ استعفیٰ منظور کیا اور جیسن گلیپسی کو ریڈ بال کے ساتھ وائٹ بال کا کوچ بھی نامزد کردیا ہے۔
فخر زمان کی تنزلی
جارحانہ بلے باز فخر زمان کا کیس جس طرح بورڈ نے ایک غیر ضروری بحث کا موضوع بنادیا ہے، وہ حیرت انگیز ہے۔ چیمپیئنز ٹرافی کے ہیرو اور پاکستان کے واحد بلے باز جنہوں نے ون ڈے میں ڈبل سنچری بنائی ہے، انہیں جس انداز میں سینٹرل کنٹریکٹ سے باہر کیا گیا ہے وہ مناسب نہیں ہے۔ چیئرمین بورڈ نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ان کی بابر اعظم کے حق میں ٹوئٹ کے علاوہ فٹنس کے بھی مسائل ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بورڈ کے چند بااثر ڈائریکٹرز چیئرمین کو غلط مشورے دے رہے ہیں۔ فخر زمان ایک کم گو اور غیر متنازعہ کھلاڑی ہیں جو اپنے کھیل سے پہچانے جاتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی میں شاہین آفریدی اور محمد رضوان، بابر اعظم کی کپتانی کے لیے ملتے جلتے بیان دے چکے ہیں لیکن سزا صرف فخر زمان کو ملی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ کپتان محمد رضوان نے فخر زمان کے بیان کی غیر محسوس انداز میں حمایت کی لیکن ان کے انتخاب میں خود کو لاچار کہہ دیا۔
فخر زمان آسٹریلین پچز پر کامیاب بلے باز ہوسکتے تھے لیکن چند لوگوں کی ناراضی نے ٹیم کو ایک باصلاحیت کھلاڑی کی خدمات سے محروم کردیا۔
ناخوشگوار ماضی
پاکستان نے آسٹریلین سرزمین پر اب تک 56 ایک روزہ میچ کھیلے ہیں جن میں 17 میچ جیتے ہیں جبکہ 37 میں شکست ہوئی ہے۔ اگرچہ آسٹریلیا میں دنیا کی ہر ٹیم کا ایسا ہی کچھ حال ہوا ہے لیکن پاکستان کا معاملہ اس لحاظ سے مایوس کن ہے کہ پاکستان نے گزشتہ 19 سال میں صرف دو میچ جیتے ہیں۔
پاکستان نے آخری دفعہ ون ڈے سیریز 2017ء میں کھیلی تھی جب پاکستان نے آخری دفعہ محمد حفیظ کی قیادت میں میلبرن میں فتح حاصل کی تھی۔ اس میچ میں پاکستانی باؤلرز نے بہت عمدہ باؤلنگ کی تھی۔ محمد عامر، حسن علی اور عماد وسیم نے آسٹریلین بیٹنگ کو بہت کم اسکور پر آؤٹ کردیا تھا لیکن اب وہ تینوں ٹیم کا حصہ نہیں ہیں۔
پاکستان ٹیم کی زیادہ تر فتوحات 90 کی دہائی کی ہیں جب وسیم اکرم اور وقار یونس کی باؤلنگ کا طوطی بولتا تھا۔ دونوں کی باؤلنگ کے سامنے آسٹریلین بلے باز ڈھیر ہوجاتے تھے۔
پاکستان نے اب تک دو سیریز آسٹریلیا میں جیتی ہیں۔ 1996ء میں وسیم اکرم کی قیادت میں پاکستان نے فتح حاصل کی تھی جبکہ 2002ء میں وقار یونس کی کپتانی میں پاکستان تین میں سے دو میچ جیت کر سیریز جیت لی تھی۔
موجودہ سیریز میں پاکستان کے لیے جیت کے امکانات بہت کم ہیں۔ لیکن اگر پاکستان ٹیم ایک میچ بھی جیت جاتی ہے تو یہ ایک بڑا معرکہ ہوگا کیونکہ پاکستان کی بیٹنگ جدوجہد کررہی ہے۔
انگلینڈ کے خلاف بیٹنگ کے عیوب باؤلنگ نے نہاں کردیے تھے لیکن کمزور اوپننگ نے ٹیم کا توازن بہت حد تک بگاڑ دیا ہے۔ مڈل آرڈر میں کوئی ایسا بلے باز نہیں جو ایک اینڈ سنبھال سکے۔ اگر مڈل آرڈر بھی پرفارم نہ کرسکی تو یہ دورہ مزید سبکی کا باعث ہوگا۔