• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

دورہ واشنگٹن کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان کی آؤ بھگت کیوں کی تھی؟

شائع November 7, 2024

ڈونلڈ ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی پاک-امریکا تعلقات پر کیسے اثرانداز ہوگی؟ سب سے پہلے ایک مفروضے کو ختم کرنا ہوگا جو بڑے پیمانے میں عوام میں پایا جاتا ہے۔ یہ بالکل بھی سچ نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی دور میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات خوشگوار تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے نکلنا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے طالبان سے مذاکرات کرنے کے لیے سابق وزیراعظم عمران خان سے مدد طلب کی تھی۔

اسی وجہ سے دورہ واشنگٹن کے دوران عمران خان کی غیرمعمولی پذیرائی کی گئی لیکن ایک بار جب طالبان کے ساتھ ڈیل ہوگئی تو ٹرمپ نے پاکستان کی جانب سے منہ موڑ لیا اور تعلقات پر کوئی مثبت اثرات مرتب نہیں ہوئے۔

ڈونلڈ ٹرمپ صرف انہیں مسائل پر توجہ دیتے ہیں جو اعلیٰ عوامی مفاد میں ہوتے ہیں اور سیاسی طور پر پُرکشش ہوتے ہیں۔ پاک-امریکا تعلقات کی موجودہ حالت ٹرمپ اس زمرے میں نہیں آتی جس پر ٹرمپ توجہ دیں اور نہ ہی انہیں پاکستان کی اندرونی حرکیات میں کوئی دلچسپی ہوگی۔ ممکنہ طور پر ڈونلڈ ٹرمپ بھی جو بائیڈن کی پالیسی پر چلتے ہوئے اسلام آباد کے ساتھ محدود تعلقات رکھیں گے جہاں وہ نہ امداد دیں گے اور نہ ہی پابندیاں لگائیں گے جوکہ ماضی میں تعلقات میں اتارچڑھاؤ کا باعث بنے۔

جو بائیڈن کے دور میں تعلقات میں نیا توازن تلاش کیا گیا جو بدلتی ہوئی علاقائی اور سیاسی جغرافیائی منظرنامے کے مطابقت رکھتا تھا اور یہ تبدیل ہوتی امریکی خارجہ پالیسی کے مطابق تھا جسے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ عالمی قوتیں عالمی معیشت اور اسٹریٹجک نظام کو تبدیل کررہی ہیں جس سے امریکا کی عالمگیریت کو خطرات لاحق ہیں۔

اندرونی طور پر امریکا میں گلوبلائزیشن، چین، عالمی طاقتوں سے تعلقات، اتحاد اور امریکا کی ’نہ ختم ہونے والی جنگیں‘، ٹرمپ کے دنیا کو دیکھنے کے نظریے کو ترتیب دے رہی ہیں۔ یوں امریکا خود کو اور دنیا امریکا کو جس نظر سے دیکھتی ہے، اس میں تبدیلی آرہی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے تحت پاک-امریکا تعلقات کو ممکنہ طور پر محکمہ خارجہ اور پینٹاگون سنبھالیں گے جن کی پاکستان پالیسی میں چار عناصر شامل ہیں۔

پہلے عنصر کا تعلق چین، بھارت اور افغانستان کے ساتھ امریکی پالیسیز سے ہے۔ امریکا، پاکستان پر چین کے سیاسی اور معاشی اثرورسوخ کو محدود کرنے کی کوشش کرے گا اور یہ بھی چاہے گا کہ اسلام آباد انڈو-پسیفک اسٹریٹجی میں بھارت کی اہمیت کا احترام کرے۔ جہاں تک افغانستان کی بات ہے تو اس کا استحکام پاکستان سمیت خطے کی سلامتی کے لیے اہم ہے۔

دوسرا عنصر براہِ راست پاکستان میں امریکی مفاد یعنی معاشی اور سیاسی عدم استحکام سے جڑا ہے کیونکہ اس سے خطے میں انتہا پسندی اور اندرونی سلامتی کے خطرات بڑھ جائیں گے۔ اس کی بنا پر امریکا کی پاکستان میں ممکنہ بنیاد پرستی سے متعلق خدشات میں اضافہ ہوگا کیونکہ اس سے پاکستان کے جوہری اثاثوں کی سلامتی کو خطرہ ہوگا۔

تیسرا عنصر انسدادِ دہشت گردی ہے۔ پاکستان کو مختلف کرداروں میں دیکھا گیا، کبھی وہ شراکت دار ہوتا ہے، کبھی ہدف یا مظلوم۔ واشنگٹن کو اپنی اور عالمی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھنے جانے والے دہشتگردوں سے نمٹنے کے لیے اسلام آباد کے تعاون کی ضرورت ہے۔ وہ یہ بھی چاہے گا کہ اسلام آباد اپنے اور بھارت کی استحکام کے لیے خطرہ بننے والے عسکریت پسندی کے خطرات سے نمٹے۔ واشنگٹن جہاں ممکن ہو، وہاں مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔

چوتھا عنصر اقتصادی شعبے میں پاک-امریکا کا بڑھتا تعاون ہے جس میں توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور زراعت کے شعبے شامل ہیں۔ سرمایہ کاری کا جذبہ حوصلہ افزا ہے اور امریکا اب بھی برآمدات کے لیے پاکستان کی پہلی ترجیح ہے۔

یہ تمام عناصر اشارہ کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کو تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم چند معاملات کے حوالے سے ٹرمپ کے خیالات امریکی پالیسیز پر اثرانداز ہوسکتے ہیں جیسے بیرونِ ملک افواج کی کم سے کم مداخلت، فوجی امداد میں کمی، دفاع میں زیادہ حصہ ڈالنے کے لیے اتحادیوں پر دباؤ، تجارتی ٹیرف میں اضافہ اور ممکنہ طور پر چین کے لیے سخت مؤقف اختیار کرنا وغیرہ۔ تاہم یہ واضح نہیں یہ سب کب اور کیسے ہوگا۔

بائیڈن انتظامیہ نے پہلے ہی پاکستان کے لیے امداد کم کی کردی تھی تو ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی بھی مختلف نہیں ہوگی۔ لیکن ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ تجارتی ٹیرف میں اضافے کا اثر پاکستان پر ہوگا یا نہیں۔ ٹرمپ کے گزشتہ دورِ صدارت میں انڈو-پسیفک اسٹریٹجی میں اہم کردار ادا کرنے کے باوجود بھارت پر تجارتی ٹیرف سے متاثر ہوا۔

ٹرمپ نے پچھلی دفعہ انتہائی سنجیدگی سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کی تھی، ہمیں ان کی یہ پیش کش قبول نہیں کرنی چاہیے۔ اس پیش کش کا کشمیر سے کوئی تعلق نہیں تھا، انہوں نے اپنے لیے ایسا کیا تھا۔ وہ پاکستان کو خوش کرنا چاہتے تھے اور وہ خود کو ایک مقبول رہنما کے طور پر دکھانا چاہتے تھے جو ممالک کے درمیان تنازعات کو حل کرتے ہیں۔

ٹرمپ کا نظریہ ہمیشہ یہ پرکھنا ہوگا کہ کسی ملک کے لیے کچھ کرنے سے پہلے وہ ملک امریکا کے لیے کیا کرسکتا ہے۔ پاکستان کو محتاط انداز میں سفارت کاری کے ذریعے امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو سنبھالنا ہوگا بالخصوص ایسے مسائل جن سے امریکا میں پاکستان کا منفی تاثر جاسکتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا تو ٹرمپ کی جانب سے تلخ ردعمل سامنے آسکتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیز، معلومات یا اداروں پر مبنی نہیں بلکہ وہ ان کی شخصیت اور سیاسی مقاصد کے گرد گھومتی ہیں۔ وہ ون مین شو ہیں۔ اپنے ایجنڈے میں سب سے زیادہ ترجیح وہ اپنی ذات کو دیتے ہیں جبکہ ان کا ایجنڈا سیاسی حالات کی مناسبت سے تبدیل ہوتا رہتا ہے۔

دی گارڈین نے لکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کی خارجہ پالیسی کو ’فری لانس‘ کریں گے۔ اگر وہ واقعی اسے اپنے طور پر ترتیب دیں گے تو ہمیں غیرمتوقع صورت حال کے لیے خود کو تیار رکھنا چاہیے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

توقیر حسین

لکھاری سابق سفیر ہیں اور جارج ٹاؤن اینڈ سائراکس یونیورسٹی سے بطور ایڈجنکٹ فیکلٹی وابستہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024