ڈاکٹر شاہ نواز قتل کیس: سابق ڈی آئی جی، ایس ایس پی میرپور خاص کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری
میر پور خاص کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر قتل کیس میں سابق ڈی آئی جی میر پور خاص جاوید جسکانی اور سابق ایس ایس پی اسد علی کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کے اہل خانہ کے وکیل، بیرسٹر اسد اللہ شاہ راشدی اور اظہر آرائیں نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے کے حکام اس قدر نا اہل ہیں کہ وہ تاحال مطلوبہ سی سی ٹی وی فوٹیج اور ملزمان کے موبائل فونز تک برآمد کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
واضح رہے کہ رواں سال ستمبر کے مہینے میں عمرکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کو میرپورخاص میں مبینہ جعلی مقابلے میں پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا، واقعے سے ایک روز قبل ہی ان پر توہین مذہب کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا تاہم بعد ازاں آئی جی سندھ کی جانب سے بنائی گئی خصوصی ٹیم نے اس مقابلے کو ’جعلی‘ قرار دیا تھا۔
میرپور خاص کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دوران سماعت ڈاکٹر شاہ نواز کے خاندان کے وکلا نے ایف آئی اے حکام کی جانب سے جمع کرائی جانے والی ابتدائی رپورٹ اور پولیس کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ عدالت اس قتل کیس کی ’جوڈیشل انکوائری‘ کے لیے احکامات جاری کرے تاکہ متاثرہ خاندان کو انصاف ملنے کی راہ ہموار ہوسکے۔
ایف آئی اے کے افسران نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں مزید تفتیش کے لیے مہلت دی جائے، تاہم عدالت نے کیس کی مزید سماعت 18 دسمبر تک ملتوی کردی۔
ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کا خاندان اس قتل کیس کی عدالتی انکوائری کا مطالبہ کر رہا ہے، انہیں ایف آئی اے کی جانب سے اس کیس کے ساتھ کیے جانے والے برتائو پر بھی شدید تحفظات ہیں۔
ایڈووکیٹ ابراہیم کنبھر، مقتول ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کے والد محمد صالح اور بھائی بابر کنبھر نے گائوں جانہرو میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کو قتل کرنے سے قبل شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، بعد میں ان کی لاش کو مشتعل ہجوم کی جانب سے آگ لگا دی گئی تھی۔
ایڈووکیٹ ابراہیم کنبھر نے کہا کہ سابق ڈی آئی جی جاوید جسکانی اور سابق ایس ایس پی اسد علی کے وارنٹ گرفتاری کے اجرا میں غیر ضروری تاخیر ہوئی ہے، انہوں نے الزام عائد کیا کہ عدالت میں جمع کرائے گئے موبائل فونز بالکل نئے تھے، یہ کھلا ’فراڈ‘ ہے اور اس معاملے پر علیحدہ قانونی کارروائی کی جائے۔
عدالت میں سماعت کے دوران بتایا گیا تھا کہ جعلی مقابلہ کرنے کے ذمے داروں کے خلاف مقدمہ آئی جی سندھ کی جانب سے بنائی گئی خصوصی ٹیم کی رپورٹ کی روشنی میں درج کیا گیا تھا، ایڈووکیٹ ابراہیم نے کہا کہ اس رپورٹ میں مقابلے کو ’منصوبہ بندی‘ کا حصہ قرار دیا گیا ہے لہٰذا یہ رپورٹ تیار کرنے والے ٹیم ممبران کے بیانات بھی بطور گواہ قلم بند کیے جائیں۔
ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کے خاندان نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ کے سینئر جج کی نگرانی میں جوڈیشل کمیشن بنایا جائے جو اس کیس کی جامع اور شفاف تحقیقات کرے، ڈاکٹر کنبھر کے اہل خانہ نے کیس کی سماعت میں مسلسل تاخیر پر بے چینی اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سلسلہ نہ رکا اور عدالتی انکوائری نہ کرائی گئی تو وہ آئینی پٹیشن دائر کریں گے۔
ایڈووکیٹ ابراہیم کنبھر نے کہا کہ میڈیکل بورڈ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کے جسم پر 4 جگہ فریکچرز آئے تھے اور اس کے باوجود وہ زندہ تھے تاہم ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں سازش کرکے اس بات کا ذکر حذف کردیا گیا، انہوں نے کہا کہ آٹوپسی رپورٹ تیار کرنے والے ڈاکٹر کے خلاف محکمہ صحت نے کارروائی نہ کی تو ہم قانونی کارروائی کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ کئی ماہ گزرنے کے باوجود انصاف کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہیں، متاثرہ خاندان عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر رہا ہے تاکہ ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کو انصاف مل سکے۔