پاکستان پوسٹ میں 5 ہزار اسامیوں پر ہر وزیر ’اپنوں‘ کو نوازتا رہا، قائمہ کمیٹی میں انکشاف
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کے اجلاس میں پارلیمانی سیکریٹری مواصلات گل اصغر نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان پوسٹ میں 5 ہزار اسامیاں خالی تھیں، جو بھی وزیر آتا تھا، ان خالی اسامیوں پر اپنوں کو نوازتا تھا، تاہم اب وفاقی وزیر مواصلات نے تمام غیر ضروری تمام اسامیوں کو ختم کر دیا ہے۔
قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں متعلقہ حکام سے پاکستان پوسٹ پر تفصیلی بریفنگ طلب کر لی۔
چیئرمین اعجاز جاکھرانی کی صدارت میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ پارلیمانی سیکریٹری برائے مواصلات گل اصغر نے بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان پوسٹ کا ڈیجیٹائزیشن اور بزنس پلان اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کو بھجوا دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ منظوری کے بعد پوسٹ آفس میں جدت لانے پر کام شروع ہو جائے گا، پوسٹ آفس کی کمرشل پراپرٹیز کو لیز پر دیا جائے گا، اس سال وفاقی حکومت کو 5 ارب روپے کما کر دینے کی یقین دہانی کروائی ہے، اس وقت پاکستان پوسٹ کا سالانہ خرچہ 28 ارب روپے ہے، خرچہ پورا کرنے کے بعد وفاقی حکومت کو 5 ارب روپے کا منافع دیں گے، پوسٹ آفس کی تمام تر ٹرانزیکشنز ڈیجیٹل کرنے جارہے ہیں۔
واضح رہے کہ وفاقی وزارت مواصلات کے ذیلی ادارے پاکستان پوسٹ کو بھی خسارے میں چلنے والے قومی اداروں میں شمار کیا جاتا رہا ہے، گزشتہ سال وفاقی حکومت نے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پاکستان پوسٹ سمیت 4 سرکاری اداروں کی نجکاری کی منظوری بھی دی تھی، اس سلسلے میں خصوصی ٹربیونل بھی بنایا گیا تھا۔
کمیٹی کے رکن حمید حسین نے استفسار کیا کہ ڈاک وقت پر نہیں پہنچ رہی، اس حوالے سے کوئی چیکنگ کا میکانزم ہے؟ جمال شاہ کاکڑ نے تجویز دی کہ ڈیجیٹل دور میں پوسٹ آفس جیسے ادارے کی ضرورت ہی نہیں اسے ختم کر دینا چاہیے۔
سید مصطفیٰ کمال نے کہا کہ خراب معاشی حالات میں پاکستان پوسٹ سفید ہاتھی بن چکا ہے، ترقی پذیر ممالک میں پوسٹ آفس کی کیا صورتحال ہے؟
چیئرمین کمیٹی نے استفسار کیا کہ پاکستان پوسٹ کو حکومتی ملکیت میں چلانا ہے یا اسے پرائیویٹ کرنا ہے؟ چیئرمین کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں متعلقہ حکام سے پاکستان پوسٹ پر تفصیلی بریفنگ طلب کر لی۔
کمیٹی میں انسپکٹر جنرل موٹروے پولیس نے قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ایکسل لوڈ پر گزشتہ ایک سال میں 4 ارب روپے سے زائد کے جرمانے کیے گئے، شاہراہوں کی مرمت کے لیے ہر سال ایک ارب ڈالرز کی ضرورت ہے، موٹروے پولیس ٹریفک لائسنس جاری کرتی ہے، ہائی ویز پر جرمانوں کا نظام ڈیجٹلائز کر رہے ہیں۔
چیئرمین کمیٹی نے استفسار کیا کہ باہر کے ملکوں میں گاڑیوں کا ہر سال اسموگ ٹیسٹ کیا جاتا ہے، کیا موٹروے پولیس بھی اسموگ ٹیسٹ کرتی ہے؟ آئی جی موٹروے نے جواب دیا کہ یہ صوبائی نوعیت کا معاملہ ہے، شاہراؤں پر سیکیورٹی کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے افرادی قوت بڑھانی چاہیے۔