• KHI: Fajr 5:54am Sunrise 7:15am
  • LHR: Fajr 5:34am Sunrise 7:01am
  • ISB: Fajr 5:42am Sunrise 7:11am
  • KHI: Fajr 5:54am Sunrise 7:15am
  • LHR: Fajr 5:34am Sunrise 7:01am
  • ISB: Fajr 5:42am Sunrise 7:11am

سویلین کے ملٹری ٹرائل کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کیلئے 7 رکنی آئینی بینچ تشکیل

شائع December 6, 2024
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

سپریم کورٹ آف پاکستان کی آئینی بینچز کمیٹی نے سویلین کے ملٹری ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے لیے 7 رکنی آئینی بینچ تشکیل دے دیا۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی 9 دسمبر کو انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کرے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن رضوی بینچ میں شامل ہیں، اس کے علاوہ جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال بھی 7 رکنی آئینی بینچ کا حصہ ہیں۔

یاد رہے کہ بینچ تشکیل دیے جانے سے کچھ دیر قبل ہی چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس شاہد بلال حسن کی آئینی بینچ میں شمولیت کی منظوری دی گئی تھی۔

اجلاس میں کمیشن کے تمام اراکین نے شرکت کی تھی، جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ جسٹس منیب اختر نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی، اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر اور سینیٹر علی ظفر نے بھی شرکت کی، جوڈیشل کمیشن کی جانب سے جسٹس شاہد بلال حسن کی آئینی بینچ میں شمولیت کی منظوری دی گئی۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا آج کا ایک اجلاس 29 نومبر کو سویلینز کے ملٹری ٹرائلز سے متعلق مقدمات کی سماعت کے لیے آئینی بینچ تشکیل دینے کے سلسلے میں طلب کیا تھا۔

اس سلسلے میں آئینی بینچ نے جسٹس عائشہ ملک کی جگہ نئے جج کی شمولیت کے لیے کمیشن سے رجوع کیا تھا جب کہ 20 نومبر کو سپریم کورٹ کی آئینی بینچز کمیٹی نے جسٹس عائشہ اے ملک کو سویلین کے ملٹری ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیلوں پر آئینی بینچ میں سماعت کا حصہ نہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے 13 نومبر کو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں ہونے والے آئینی بینچز کمیٹی کے اجلاس کے جاری کردہ اعلامیے میں کہا تھا کہ جسٹس عائشہ اے ملک عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف فیصلہ دینے والے 7 رکنی بینچ کا حصہ تھیں لہٰذا وہ اس فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر آئینی بینچ میں خدمات انجام نہیں دے سکتیں۔

یاد رہے کہ 22 مارچ کو سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر ہوگئی تھیں، اس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپیلوں کی سماعت کے لیے نیا 6 رکنی بینچ تشکیل دے دیا تھا۔

خیال رہے کہ اکتوبر 2023 میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ دیا جس میں 103 شہریوں کے ٹرائل کو آئین کے خلاف قرار دیا گیا۔

اس فیصلے کو وفاقی حکومت، وزارت دفاع، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان حکومت نے انٹراکورٹ اپیلوں کے ذریعے چیلنج کیا تھا، بعدازاں 6 ججوں کے بینچ نے 13 دسمبر 2023 کو یہ فیصلہ 5-1 کی اکثریت سے معطل کر دیا تھا۔

29 جنوری کو ہونے والی آخری سماعت پر جسٹس سردار طارق مسعود (جو کہ ریٹائر ہو چکے ہیں) نے یہ انٹرا کورٹ اپیل 3 ججوں پر مشتمل کمیٹی کے پاس بھیج دی تھی تاکہ اسے لارجر بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جا سکے۔

چیف جسٹس اور 2 سینیئر ججوں پر مشتمل کمیٹی کو سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے تحت بنچوں کی تشکیل کا کام سونپا گیا تھا۔

معاملہ کمیٹی کو دیتے ہوئے سابق جسٹس (ر) سردار طارق مسعود نے واضح کیا تھا کہ 23 اکتوبر کا حکم نامہ بینچ کی تشکیل تک معطل رہے گا۔

کارٹون

کارٹون : 26 دسمبر 2024
کارٹون : 25 دسمبر 2024