اسٹاک مارکیٹ میں تیزی برقرار، ایک لاکھ 10 ہزار پوائنٹس کی حد بھی عبور
پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروباری ہفتے کے آغاز پر مسلسل 9 ویں روز بھی تیزی کا رجحان برقرار ہے، ایک ہزار سے زائد پوائنٹس کے اضافے سے 100 انڈیکس ایک لاکھ 10 ہزار پوائنٹس کی نفسیاتی حد بھی عبور کرگیا۔
پیر کو نئے کاروباری ہفتے کے آغاز پر صبح 11 بجے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بینچ مارک 100 انڈیکس ایک ہزار 44 پوائنٹس یا 0.96 فیصد کے اضافے سے ایک لاکھ 10 ہزار 98 پوائنٹس پر پہنچ گیا۔
تاہم، کاروبار کے اختتام پر انڈیکس میں ایک لاکھ 10 ہزار پوائنٹس کی نفسیاتی حد برقرار نہ رہی سکی اور کے ایس ای-100 انڈیکس 916 یا .084 فیصد بڑھ کر ایک لاکھ 9 ہزار 970 پر بند ہوا۔
واضح رہے کہ جمعہ کو کاروباری ہفتے کے اختتام پر 100 انڈیکس ایک لاکھ 9 ہزار 53 پوائنٹس کی سطح پر بند ہوا تھا۔
پچھلے 2 ہفتے کے دوران پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے ایک دن میں سب سے زیادہ اضافے کے کئی ریکارڈ بنائے ہیں، میوچوئل فنڈز میں وسیع پیمانے پر خریداری کے باعث گزشتہ ہفتے انڈیکس میں ہفتہ وار 7 ہزار 697 پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔
چیس سیکیورٹیز کے ریسرچ ڈائریکٹر یوسف ایم فاروق نے کہا کہ ’شرح سود بلندترین سطح سے اب زیادہ معمول کی سطح پر واپس آ گئی ہے، اس تبدیلی نے اسٹاک ویلیو ایشن کو تیزی سے زیادہ معقول سطح پر لا کھڑا کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ مارکیٹ کی شرح سود جو جون 2024 میں 20.5 فیصد پر موجود تھی، اب 12 فیصد کے قریب پہنچ گئی ہے، امید ہے کہ 16 دسمبر کو آنے والی نئی مانیٹری پالیسی میں شرح سود مزید کمی آجائے گی۔
یوسف ایم فاروق نے مزید کہا کہ ’ شرح سود میں آنے والی اس بڑی کمی نے فکسڈ انکم سے ایکویٹیز کی طرف نمایاں منتقلی کو جنم دیا ہے، میوچل فنڈز سے ایکویٹی مارکیٹ میں غیر معمولی رفتار سے ریکارڈ رقم داخل ہوئی ہے’۔
تجزیہ کار کے مطابق موجودہ مارکیٹ کی حرکیات کو معمول کی طرف واپسی کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔
یوسف ایم فاروق نے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ اس تیزی کے نتیجے میں مارکیٹ کا طویل مدتی منافع معمول پر آجائے گا اور امکان ہے کہ سرمایہ کار مستقبل میں تاریخی طویل مدتی اوسط کے قریب تر منافع حاصل کریں گے۔
تاہم انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا رپورٹس کی وجہ سے بینک آج دباؤ میں کھلے، جن میں کہا گیا ہے کہ حکومت بینکوں پر ٹیکس لگانے کے اضافی طریقے تلاش کر رہی ہے، جو پہلے ہی اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ بطور ٹیکس دے رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں نے میکرو اکنامک اشاریوں میں بہتری اور افراط زر کی شرح میں 4.9 فیصد تک کمی—جو 2017 کے بعد سے کم ترین سطح ہے— کو سرمایہ کاروں میں پُرامیدی کی وجہ قرار دیا ہے ۔
تجزیہ کاروں کا مانناہے کہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستانی معیشت کو سہارا دینے کے لیے 3 ارب ڈالر کے ڈیپازٹ میں مزید ایک سال کی توسیع اور پاکستان اور عرب کے درمیان طے پانے والی 37 مفاہمتی یادداشتوں میں سے 7 کی 5کروڑ60 لاکھ ڈالر کے رسمی معاہدوں میں تبدیلی سے انڈیکس کو مزید رفتار ملی ہے۔