نواز شریف، آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کی توشہ خانہ کیس ایف آئی اے کو بھجوانے کی استدعا مسترد
اسلام اباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم نواز شریف، آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی و دیگر کے خلاف توشہ خانہ گاڑیوں کا ریفرنس ایف آئی اے ایجنسی کو بھیجنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ایف آئی اے کے اسپیشل جج سینٹرل کو بھیج دیا ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر 3 کی جج عابدہ سجاد نے صدر آصف زرداری، سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی توشہ خانہ کی گاڑیوں کا مقدمہ ایف آئی اے کو بھجوانے کی استدعا پر محفوظ شدہ فیصلہ سنا دیا۔
عدالت نے توشہ خانہ گاڑیوں کا کیس ایف آئی اے ایجنسی کو بھیجنے کی استدعا مسترد کردی۔
احتساب عدالت کی جج عابدہ سجاد نے ریفرنس ایف آئی اے کے اسپیشل جج سینٹرل کو بھیج دیا، قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے کیس ایف آئی اے عدالت میں بھیجنے کی استدعا کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ 7 نومبر کو ہونے والی سماعت نیب نے گاڑیوں کا ریفرنس اسپیشل جج سینٹرل کی عدالت منتقل کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ مقدمہ اب نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔
اس موقع پر فاضل جج عابدہ سجاد نے کہا تھا کہ نیب نے اپنا جواب جمع کروا دیا ہے، ڈپٹی ڈی جی پراسیکیوٹر نیب بھی کمرہ عدالت میں پیش ہوئے تھے۔
آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا تھا کہ آخر میں نیب نے ہاتھ سے معلوم نہیں کیا لکھا، فاضل جج نے ریمارکس دیے کہ نیب زبانی کہہ رہا تھا کیس اسپیشل جج سینٹرل کو بھیجیں جس پر میں نے ہدایت لکھ کر دیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، ان کیسز میں بہت سے ججز کو ریٹائرڈ ہوتے دیکھا ہے، آخر میں ہم ہی بچے ہیں، میری استدعا ہے کہ کیس ایف آئی اے ایجنسی کو بھیجا جائے وہی عدالت بھیجے، اب تک اس کیس میں چالان بھی پیش نہیں ہوا۔
ڈپٹی ڈی جی نیب نے کیس ایف آئی اے ایجنسی کو بھیجنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ایجنسی کیسے جانچ پڑتال کرے گی۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا تھا کہ یہ کیس نیب سیکشن-9 کے تحت ہوا اور بیان بھی ریکارڈ ہوئے، اس کیس میں دوبارہ انکوائری ہو گی اور انکوائری ایجنسی ہی کرے گی۔
فاضل جج نے استفسار کیا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کے کیس میں کیا ہوا تھا، وکلا نے بتایا کہ اس میں چالان آگیا تھا، اس وجہ سے عدالت کو منتقل کیا گیا تھا۔
یوسف رضا گیلانی، نواز شریف و دیگر ملزمان کے وکلا نے فاروق ایچ نائیک کے دلائل سے اتفاق کیا۔
عدالت نے ریفرنس ایف آئی اے ایجنسی یا اسپیشل جج سینٹرل کو بھیجنے پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
اس سے قبل 30 نومبر کو ہونے والی سماعت میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے ریفرنس واپس کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔
نواز شریف کے وکیل نے عدالت میں موقف اپنایا تھا کہ نیب ترامیم کے بعد توشہ خانہ گاڑیوں کا کیس نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، احتساب عدالت اسلام آباد نے نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیاتھا۔
اس سے قبل رواں سال اپریل میں کیس کی سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو توشہ خانہ کی گاڑیوں سے متعلق ریفرنس سے بری کرنے کی استدعا کردی تھی۔
ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد کی احتساب عدالت میں 17 اپریل کو ہونے والی سماعت میں نیب نے نواز شریف کے شامل تفتیش ہونے سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کروا دی تھی۔
رپورٹ میں نیب کا کہنا تھا کہ 1997 میں سعودی عرب حکومت کی جانب سے گاڑی اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو تحفے میں دی گئی، نواز شریف نے تحفے میں ملی گاڑی کو توشہ خانہ میں جمع کروا دیا، بعد ازاں تحفے میں ملی گاڑی کو وفاقی ٹرانسپورٹ پول میں شامل کر لیا گیا تھا۔ 2008 میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے نواز شریف کو گاڑی خریدنے کی آفر کی۔
رپورٹ کے مطابق نواز شریف نے گاڑی توشہ خانہ سے نہیں بلکہ وفاقی ٹرانسپورٹ پول سے خریدی، نواز شریف نے گاڑی کی قیمت کی ادائیگی جعلی بینک اکاؤنٹ سے نہیں کی، نواز شریف کو جب گاڑی تحفے میں ملی تب انہوں نے گاڑی کو توشہ خانہ میں جمع کرایا، جب خریدی تو اس وقت گاڑی توشہ خانہ کا حصہ نہیں تھی۔
نیب نے رپورٹ میں استدعا کی تھی کہ عدالت نواز شریف کو توشہ خانہ ریفرنس سے خارج یا بری قرار دے سکتی ہے۔
توشہ خانہ ریفرنس
احتساب عدالت میں قومی احتساب بیورو کے دائر کردہ ریفرنس کے مطابق یوسف رضا گیلانی پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف پر غیر قانونی طور پر گاڑیاں الاٹ کرنے کا الزام ہے۔
اس ریفرنس میں اومنی گروپ کے سربراہ خواجہ انور مجید اور خواجہ عبدالغنی مجید کو بھی ملزم نامزد کیا گیا ہے۔
ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ آصف زرداری اور نواز شریف نے کاروں کی صرف 15 فیصد قیمت ادا کر کے توشہ خانہ سے گاڑیاں حاصل کیں۔
بیورو نے الزام عائد کیا کہ یوسف رضا گیلانی نے اس سلسلے میں نواز شریف اور آصف زرداری کو سہولت فراہم کی اور تحائف کو قبول کرنے اور ضائع کرنے کے طریقہ کار کو غیر قانونی طور پر نرم کیا۔
ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ آصف زرداری نے ستمبر اور اکتوبر 2008 میں متحدہ عرب امارات سے مسلح گاڑیاں (بی ایم ڈبلیو 750 لی ماڈل 2005، لیکسز جیپ ماڈل 2007 اور لیبیا سے بی ایم ڈبلیو 760 لی ماڈل 2008) حاصل کیں۔
مذکورہ ریفرنس کے مطابق وہ فوری طور پر اس کی اطلاع دینے اور کابینہ ٖڈویژن کے توشہ خانہ میں جمع کروانے کے پابند تھے لیکن انہوں نے نہ تو گاڑیوں کے بارے میں مطلع کیا نہ ہی انہیں نکالا گیا۔
نیب ریفرنس میں الزام لگایا گیا تھا کہ سال 2008 میں نواز شریف کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا اس کے باوجود اپریل تا دسمبر 2008 میں انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کوئی درخواست دیے بغیر اپنے فائدے کے لیے کابینہ ڈویژن کے تحت طریقہ کار میں بے ایمانی اور غیر قانونی طور پر نرمی حاصل کی۔
ریفرنس کے مطابق خواجہ انور مجید نے ایم ایس انصاری شوگر ملز لمیٹڈ کے اکاؤنٹس استعمال کرتے ہوئے آواری ٹاور کے نیشنل بینک کے ایک اکاؤنٹ سے 92 لاکھ روپے آصف زرداری کے اکاؤنٹ میں منتقل کیے۔
اس کے علاوہ انہوں نے ایک اکاؤنٹ کے ذریعے آصف زرداری کی جانب سے ایک کروڑ 11 لاکھ 17 ہزار 557 روپے کی ادائیگی کی، ملزم نے اپنی غیر قانونی اسکیم کے سلسلے میں آصف زرداری کے ناجائز فوائد کے لیے مجموی طور پر 2 کروڑ 3 لاکھ 17 ہزار 557 روپے ادا کیے۔
دوسری جانب خواجہ عبدالغنی مجید نے آصف زرداری کو ناجائز فائدہ پہنچانے کے لیے 3 ہزار 716 ملین (371 کروڑ 60 لاکھ) روپے کی خطیر ادائیگیاں کیں۔
نیب نے ان افراد پر بدعنوانی کا جرم کرنے اور نیب قوانین کے تحت واضح کی گئیں کرپٹ پریکٹسز میں ملوث رہنے کا الزام لگایا۔
نیب نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ ان ملزمان پر مقدمہ چلا کر سخت ترین جیل کی سزا دی جائے۔