• KHI: Maghrib 5:45pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:30pm
  • KHI: Maghrib 5:45pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:30pm

اتحاد تنظیمات مدارس نے صدر آصف زرداری کا مدارس رجسٹریشن بل پر اعتراض مسترد کردیا

شائع December 14, 2024
— فوٹو: آن لائن
— فوٹو: آن لائن

اتحاد تنظیمات مدارس نے صدرمملکت آصف علی زرداری کا مدارس رجسٹریشن بل پر اعتراض مسترد کر دیا۔

ڈان نیوز کے مطابق پشاور میں نیوز کانفرنس میں علما نے دعویٰ کیا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) سمیت عالمی مالیاتی ادارے مدارس کی رجسٹریشن نہیں چاہتے۔

اتحاد تنظیمات مدارس کی مدارس رجسٹریشن کے حوالے سے مشترکہ پریس کانفرنس میں صوبائی صدر حسین احمد نے کہا کہ ملک میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کا مسئلہ چل رہا ہے، 1960 سے مدارس رجسٹریشن کا عمل جاری ہے، 2016 میں فیصلہ ہوا کہ مدارس کی رجسٹریشن وفاقی مدارس کے ساتھ ہوگی، صدرزرداری نے ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کو فرقہ وارنہ نظریات سے تصادم قرار دیا، ہم سب مسالک والے اکھٹے ہیں۔

حسین احمد کا کہنا تھا کہ ایک انتظامی حکم سے رجسٹریشن کا کہا جارہا ہے، اسمبلیوں سے منظور قانون نہیں مانا جارہا ہے، صدر زرداری کا اعتراض بہت عجیب ہے، ایف اے ٹی ایف سمیت دیگر عالمی مالیاتی ادارے مدارس کی رجسٹریشن نہیں چاہتے۔

ان کا کہنا تھا کہ 1860مدارس ایکٹ کو ایک سوسائٹی میں مختلف مدارس کی تعمیر کی نظر سے دیکھا جاسکتا ہے، بل پر ایک مرتبہ صدر نے اعتراض کرنے کے بعد دوبارہ بھیجا اور پھر وقت گزرنے کے بعد دستخط نہیں کیے۔

حسین احمد کا کہنا تھا کہ صدر کے دستخط نہ کرنے کے باوجود اب قانون بن چکا ہے صرف نوٹیفکیشن جاری کرنا باقی ہے، 16 دسمبر کو اتحاد تنظیمات مدارس کی مرکزی قیادت جو بھی فیصلہ کرے گی ہم لبیک کہیں گے، پاکستان کے دینی مدارس کے حقیقی نمائندے اتحاد تنظیمات مدارس ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اتحاد تنظیمات مدارس میں مجموعی طور 40 لاکھ سے زائد طلبہ الحاق میں ہیں، وفاق المدارس کے ساتھ خیبر پختونخوا میں 7 ہزار 500 مدارس رجسٹرڈ ہیں، بورڈز میں وفاق المدارس عربیہ، تنظیم اہل سنت، سلفیہ، رابطہ المدارس اسلامیہ، وفاقی مدارس شیعہ شامل ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز (13 دسمبر) مدارس رجسٹریشن بل پر صدر مملکت آصف زرداری کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات سامنے آئے تھے۔

ڈان نیوز کے مطابق آصف زرداری نے اعتراض میں مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے پہلے سے موجود قوانین پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ آرڈیننس 2001 اور اسلام آباد کیپٹیل ٹیریٹوری ٹرسٹ ایکٹ 2020 کا حوالہ دیا تھا۔

صدر مملکت نے کہا تھا کہ دونوں قوانین کی موجودگی میں نئی قانون سازی ممکن نہیں ہو سکتی، سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 اسلام آباد کی حدود میں نافذ العمل ہے۔

انہو ں نے کہا تھا کہ نئے بل میں مدرسہ کی تعلیم کی شمولیت سے 1860 کے ایکٹ کے ابتدائیہ کے ساتھ تضاد پیدا ہو گا، اس قانون کے تحت مدرسوں کی رجسٹریشن سے فرقہ واریت کے پھیلاؤ کا خدشہ ہو گا۔

صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ ایک ہی سوسائٹی میں بہت سے مدرسوں کی تعمیر سے امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا اندیشہ ہو گا، سوسائٹی میں مدرسوں کی رجسٹریشن سے مفادات کا ٹکراؤ ہو گا، ایسے مفادات کے ٹکراؤ سے عالمی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔

س سے ایک روز قبل (12 دسمبر) جے یو آئی (ف) کے سینیٹر مولانا عبدالواسع نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے مدارس بل منظور نہ کیے جانے کی صورت میں وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کا عندیہ دیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ اگر مدارس کے حوالے سے یہی سلسلہ جاری رہا تو ہم اسلام آباد آئیں گے، آپ گولیاں چلائیں گے اور آپ کی گولیاں ختم ہوجائیں گی، ہم واپس نہیں جائیں گے۔

چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیرِ صدارت سینیٹ اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے سینیٹر مولانا عبدالواسع نے کہا تھا کہ جے یو آئی ہی 2018کے الیکشن کے خلاف تحریک چلارہی تھی، جو کام پی ٹی آئی سے کروائے گئے، وہی آج کی حکومت سے کروائے جارہے ہیں۔

مدارس بل کیا ہے؟

20 اکتوبر 2024 کو مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے ایک بل سینیٹ میں پیش کیا گیا جس میں ذیل میں درج شقیں شامل کی گئی ہیں۔

بل کو ’سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024‘ کا نام دیا گیا ہے، بل میں متعدد شقیں شامل ہیں۔

بل میں 1860 کے ایکٹ کی شق 21 کو تبدیل کرکے ’دینی مدارس کی رجسٹریشن‘ کے نام سے ایک نئی شق شامل کی گئی ہے۔

اس شق میں کہا گیا ہے کہ ہر دینی مدرسہ چاہے اسے جس نام سے پکارا جائے اس کی رجسٹریشن لازم ہوگی، رجسٹریشن کے بغیر مدرسہ بند کردیا جائے گا۔

شق 21۔اے میں کہا گہا ہے کہ وہ دینی مدارس جو ’سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024‘ کے نافذ ہونے سے قبل قائم کیے گئے ہیں، اگر رجسٹرڈ نہیں تو انہیں 6 ماہ کے اندر اپنی رجسٹریشن کرانی ہوگی۔

شق بی میں کہا گیا ہے کہ وہ مدارس جو اس بل کے نافذ ہونے کے بعد قائم کیے جائیں گے انہیں ایک سال کے اندر اپنی رجسٹریشن کرانی ہوگی، بل میں واضح کیا گیا ہے کہ ایک سے زائد کیمپس پر مشتمل دینی مدارس کو ایک بار ہی رجسٹریشن کرانی ہوگی۔

بل کی شق 2 میں کہا گیا ہے کہ ہر مدرسے کو اپنی سالانہ تعلیمی سرگرمیوں کی رپورٹ رجسٹرار کو جمع کرانی ہوگی۔

بل کی شق 3 کے مطابق کہ ہر مدرسہ کسی آڈیٹر سے اپنے مالی حساب کا آڈٹ کروانے کا پابند ہوگا، آڈٹ کے بعد مدرسہ رپورٹ کی کاپی رجسٹرار کو جمع کرانے کا بھی مجاز ہوگا۔

بل کی شق 4 کے تحت کسی دینی مدرسے کو ایسا لٹریچر پڑھانے یا شائع کرنے کی اجازت نہیں ہو گی جو عسکریت پسندی، فرقہ واریت یا مذہبی منافرت کو فروغ دے۔

تاہم مذکورہ شق میں مختلف مذاہب یا مکاتب فکر کے تقابلی مطالعے، قران و سنت یا اسلامی فقہ سے متعلق کسی بھی موضوع کے مطالعے کی ممانعت نہیں ہے۔

بل کی شق 5 کے مطابق ہر مدرسہ اپنے وسائل کے حساب سے مرحلہ وار اپنے نصاب میں عصری مضامین شامل کرنے کا پابند ہوگا۔

بل کی شق 6 میں کہا گیا ہے کہ ایکٹ کے تحت دینی مدارس کی رجسٹریشن کے لیے کسی بھی مدرسے کو اس وقت نافذالعمل کسی دوسرے قانون کے تحت رجسٹریشن درکار نہیں ہوگی۔

بل کی شق نمبر 7 کے مطابق ایک بار اس ایکٹ کے تحت رجسٹر ہونے کے بعد کسی بھی دینی مدرسے کو کسی دوسرے قانون کے تحت رجسٹریشن کی ضرورت نہیں ہوگی۔

مذکورہ شق میں دینی مدرسے سے مراد مذہبی ادارہ یا جامعہ دارالعلوم شامل ہے یا کسی بھی دوسرے نام سے پکارے جانے والا ادارہ جس کو دینی تعلیم کے فروغ کے لیے قائم کیا گیا ہو۔

کارٹون

کارٹون : 15 دسمبر 2024
کارٹون : 13 دسمبر 2024