اسٹریٹ چلڈرن فٹبال ورلڈ کپ: کیا پاکستان پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتا ہے؟
افغانستان کی سرحد سے متصل واقع لنڈی کوتل نامی دور افتادہ شمال مغربی تحصیل میں فٹبال کھیلنے کا خیال بھی کبھی کبھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے لیکن سیکیورٹی یا سماجی رکاوٹیں مسئلہ نہیں ہیں بلکہ یہاں کی کچی اور پتھریلی زمین ہے جو فٹبال کھیلنے والوں کے جوڑ جوڑ کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ ان دشوار زمینوں پر فٹبال کھیلنے کا شوق نقصان پہنچا سکتا ہے۔
18 سالہ طفیل شنواری اس علاقے کے ان بہت سے کھلاڑیوں میں شامل ہیں جو یہاں کے ناہموار میدانوں میں فٹبال کھیل کر زخمی ہونے کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔ طفیل شنواری اسٹرائیکر ہیں جنہوں نے 2022ء میں قطر میں ہونے والے اسٹریٹ چلڈرن ورلڈ کپ میں پاکستان کی فٹبال ٹیم کی نمائندگی کی۔ کمبوڈیا، قطر اور سوڈان کے خلاف تین ہیٹ ٹرک کے ساتھ طفیل شنواری نے مجموعی طور پر 10 گول اسکور کیے اور گولڈن بوٹ اپنے نام کیا، اپنی ٹیم کو فائنل تک پہنچایا جہاں وہ مصر سے پینالٹیز پر شکست سے دوچار ہوئی۔
کلبز کے ادھورے وعدے
2014ء میں برازیل میں ٹورنامنٹ کے دوسرے ایڈیشن کا انعقاد ہوا جس میں پاکستان نے پہلی بار شرکت کی اور ٹورنامنٹ میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔ وطن واپس آنے کے بعد کھلاڑیوں کو ہیروز کی طرح سراہا گیا۔ تاہم دھول چھٹنے کے بعد اس کامیابی کا سحر اور اہمیت کم ہوتی چلی گئی۔
اگلے چند سالوں میں ہم نے دیکھا کہ آزاد فاؤنڈیشن جوکہ مقامی غیر سرکاری تنظیم ہے (این جی او)، اس کے خلاف مالی بے ضابطگی اور واجبات کی عدم ادائیگی کے الزامات لگائے گئے۔ اسی تنظیم نے ٹورنامنٹ کے لیے اسٹریٹ چلڈرن کو ٹورنامنٹ کے لیے منتخب اور انہیں سفری سہولیات فراہم کی تھیں۔
26 سالہ مہر علی بھی 2014ء کی فٹبال ٹیم کا حصہ تھے۔ کراچی ابراہیم حیدری سے تعلق رکھنے والے ماہی گیر اس ٹیم کا بھی حصہ تھے جس نے 2016ء میں ناروے میں ٹورنامنٹ میں شرکت کی تھی۔
مہر علی ان دو کھلاڑیوں میں شامل تھے جن کی کارکردگی نے کیمبرج یونائیٹڈ جو اس وقت انگلش فٹبال کے تیسرے درجے میں شامل ایک فٹبال کلب ہے، کو اپنی جانب راغب کیا۔ وہ ڈان کو بتاتے ہیں ’ہم نے انگلینڈ میں 8 ماہ تک تربیت حاصل کی اور فٹنس کے ضروری ٹیسٹ کروائے‘۔
تاہم مہر علی کے مطابق انگلش کلب کے درمیان معاہدہ ٹوٹ گیا کیونکہ این جی او کا ایک نمائندہ چاہتا تھا کہ معاہدہ ان کی ثالثی میں ہو۔ مہر علی بتاتے ہیں، ’فٹبال میں یہ اصول ہے کہ کلبز اور کھلاڑیوں کے درمیان معاہدے کی ثالثی ایجنٹس کرتے ہیں۔ چونکہ ہمارے پاس ایجنٹ نہیں تھا اس لیے بات چیت آگے نہ بڑھ سکی اور معاہدہ نہ ہوسکا‘۔
ان کی نسبت 2022ء کے ٹورنامنٹ کے اسٹار طفیل شنواری خوش قمست رہے۔ قطر میں بہترین کارکردگی کی بنیاد پر انہوں نے مقامی کلب، کراچی یونائیٹڈ کے ساتھ 14 ماہ کا معاہدہ کیا۔
لیکن اسی ٹیم کے ہر کھلاڑی پر قسمت اتنی مہربان نہیں ہوئی جس کی مثال خیبرپختونخوا کے ضلح ٹانک کے رائٹ ونگر محمد عدیل ہیں۔
قطر سے واپسی کے بعد محمد عدیل کو نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کی جانب سے معاہدے کی پیش کش ہوئی۔ محمد عدیل نے بتایا کہ ’میرے کاغذات مکمل تھے اور جمع بھی کروا دیے گئے تھے لیکن 18 ماہ گزر جانے کے باوجود بھی ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا‘۔
ایک غیر رسمی کھیل
فٹبال کی بین الاقوامی تنظیم فیفا کے مطابق اسٹریٹ چلڈرن فٹبال میچز غیر رسمی ہوتے ہیں جو ان کے ماتحت نہیں ہوتے۔ فیفا ’ہوپ فار فیوچر‘ کے اقدام کے تحت 2005ء میں غیررسمی میچز کا تصور متعارف ہوا تھا۔ اس اقدام کا مقصد تھا کہ معاشرے میں الگ تھلگ رہنے والے بچے تعلیم کے حصول کے لیے فٹبال کا سہارا لیں۔
اگرچہ اسٹریٹ چلڈرن ورلڈ کپ کا فارمیٹ جیسے گروپ اور ناک آؤٹ مراحل بالکل فیفا ورلڈ کپ کی طرح ہوتے ہیں لیکن ان ٹورنامنٹ کے اصول مختلف ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر جو ملک اسٹریٹ چلڈرن ورلڈ کپ کی میزبانی کرتا ہے وہ کھیل کے قوانین اور ضوابط طے کرسکتا ہے۔
پہلی بار اس ٹورنامنٹ کا انعقاد 2010ء میں ہوا جس کی میزبانی جنوبی افریقہ نے کی۔ اس کے بعد سے یہ ہر 4 سال بعد اسی ملک میں منعقد ہوتا ہے جو فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کرتا ہے۔
اسٹریٹ چلڈرن فٹبال ورلڈ کپ میں شرکت کرنے کے ضوابط کے مطابق ان طرز کے میچز کا پروٹوکول 14 سے 17 سال کی عمر کے بچوں کا انتخاب ہے جو بے گھر ہوں، رہ چکے ہوں یا انہیں بےگھر ہونے کا خطرہ ہو۔
راشد احمد جو 2010ء سے فٹبال کھلاڑیوں کی کوچنگ کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ’اسٹریٹ چائلڈ فٹبال کے کوئی مستقل قوانین نہیں ہوتے‘۔ وہ 2014ء میں پاکستانی اسٹریٹ چلڈرن ٹیم کے ساتھ برازیل، 2016ء میں امریکا اور 2023ء میں ناروے بھی جا چکے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں، ’اس میچ میں عموماً 14 کھلاڑی ہوتے ہیں یعنی دونوں ٹیموں سے 7، 7 کھلاڑی میچ میں شرکت کرتے ہیں۔ ایک ہاف 15 منٹ پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ میچ میں متعدد بار سبسٹی ٹیوشن کی اجازت ہوتی ہے‘۔
راشد احمد نے بتایا کہ ٹیم میں منتخب بچوں میں وہ بچے بھی شامل ہوسکتے ہیں جو منشیات کے استعمال میں ملوث ہوں، جن کے تعلیم حاصل کرنے کے کم سے کم امکانات ہوں یا جو چائلڈ لیبر پر مجبور تھے۔
کیا پاکستان قوانین کی پیروی کرتا ہے؟
اسٹریٹ چلڈرن فٹبال ٹورنامنٹ متعارف کروانے کے پیچھے بنیادی مقصد اُن بچوں کی ترقی، تعلیم اور پرورش ہے جن میں کامیاب ہونے کی صلاحیت موجود ہے لیکن ان کے پاس مواقع کی کمی ہے۔ ٹورنامنٹ میں حصہ لینے کے لیے ایک لازمی شرط یہ بھی ہے کہ اسٹریٹ ٹیم کے لیے منتخب کھلاڑی نے کبھی بھی پروفیشنل کھلاڑی کے طور پر فٹبال میچز نہ کھیلے ہوں۔
کوچ راشد خان نے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے متعدد بار اس پروٹوکول کی خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ’بہت سے منتخب کردہ کھلاڑی اسٹریٹ چائلڈ نہیں ہوتے تھے بلکہ وہ مقامی کلبز کے لیے کھیلنے والے پروفیشنل فٹبالرز ہوتے تھے‘۔
2014ء کے برازیل ایڈیشن کے دوران بھی یہ الزامات سامنے آئے۔ راشد احمد نے بتایا کہ ’جب ہم نے بھارت کی ٹیم کے خلاف 13 گولز اسکور کیے تو ان کے کوچز نے دعویٰ کیا کہ پاکستان ٹیم کے کھلاڑی اسٹریٹ چلڈرن نہیں‘۔
راشد احمد نے مزید بتایا کہ الزامات کے بعد ٹورنامنٹ کے منتظمین نے پاکستان کے چند کھلاڑیوں کا فٹنس ٹیسٹ کیا۔ ’کھلاڑیوں نے فٹنس ٹیسٹ پاس کرلیا‘۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پاکستان نے قوانین کی ٹھیک انداز میں پیروی نہیں کی۔
واجبات کی عدم ادائیگی کا شکوہ
اسٹریٹ چلڈرن فٹبال ورلڈ کپ ماڈل کے مطابق، شرکت کرنے والی ٹیمیں، شراکت دار تنظیموں کی مدد سے بنائی جاتی ہیں جو سڑکوں پر رہنے والے نوجوانوں کی مدد کے لیے براہ راست کام کرتی ہیں۔
اس وقت ناٹنگھم میں قائم ’مسلم ہینڈز‘ نامی تنظیم پاکستان کے ساتھ تعاون کررہی ہے جس نے 2022ء کے قطر ٹورنامنٹ کے لیے کھلاڑیوں کا انتخاب کیا اور انہیں تربیت دینے کی ذمہ داری نبھائی۔
طفیل شنواری اور محمد عدیل بھی 2022ء کی ٹیم کے لیے مسلم ہیڈز کی جانب سے منتخب کیے گئے تھے جنہوں نے لنڈی کوتل اور ٹانک میں ٹرائل لیے تھے۔ محمد عدیل نے ڈان کو بتایا کہ انہیں عطیات سے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے جس کی وجہ سے ان کے اخراجات پورے ہوجاتے ہیں جبکہ ان کے لیے پروفیشنل فٹبال کھیلنے کی امید ابھی باقی ہے۔
تاہم ایک اور کھلاڑی جنہوں نے اسٹریٹ چلڈرن فٹبال ورلڈ کپ کے بعد انڈر 19 قومی ٹیم میں بھی نمائندگی کی، شکوہ کیا کہ انہیں اب تک واجبات کی ادائیگی نہیں ہوسکی ہے۔ مستقبل میں ٹیم میں منتخب نہ ہونے کے امکان کے پیش نظر، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ’میرا یومیہ معاوضہ 10 ہزار روپے تھا لیکن ایک سال گزر جانے کے باوجود مجھے رقم کی ادائیگی نہیں ہوسکی ہے‘۔
کراچی کے ماہی گیر مہر علی کی کہانی بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ انہیں ایک دفعہ انگلینڈ میں پروفیشنل فٹبال کھیلنے کا موقع ملا تھا۔ انہوں نے تلخی سے بتایا کہ ’میں دوپہر میں سمندر کے سفر پر نکلتا ہوں اور آدھی رات کو گھر واپس آتا ہوں، یعنی میں 10 سے 12 گھنٹے سمندر میں ماہی گیری کرتا ہوں‘۔
مہر علی نے طنزیہ انداز میں کہا، ’اس کے بعد بھلا کس میں اتنی طاقت ہوگی کہ وہ فٹبال کھیلے؟ میں جب آئینے میں دیکھتا ہوں تو اس میں مجھے پروفیشنل فٹبالر کا وہ عکس دکھائی دیتا ہے جو پہلے کبھی میں ہوا کرتا تھا‘۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔