غزہ میں جنگ بندی کا آغاز، فلسطینیوں کی اپنے گھروں کو واپسی بھی شروع ہوگئی
اسرائیل اور حماس کے درمیان 15 ماہ اور 12 دن بعد جنگ بندی کے معاہدے پر تقریباً 3 گھنٹے کی تاخیر کے بعد عمل درآمد شروع ہو گیا، چند گھنٹے کی تاخیر کی وجہ سے اسرائیلی حملوں میں مزید 19 فلسطینی شہید اور 36 زخمی ہوگئے۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق اسرائیل نے معاہدے پر عمل درآمد کے پہلے دن رہا کیے جانے والے 3 قیدیوں کے نام ملنے کی تصدیق کی ہے۔
اس معاہدے میں لڑائی کو روکنے اور پہلے دن 3 اسرائیلی قیدیوں اور تقریباً 95 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا اہتمام کیا گیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر کا کہنا ہے کہ غزہ میں قید 3 قیدیوں کی رہائی مقامی وقت کے مطابق دن 2 بجے کے بعد کی جائے گی۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے آفس سے کہا گیا کہ 4 دیگر زندہ خواتین یرغمالیوں کو 7 دنوں میں رہا کر دیا جائے گا۔
6 ہفتوں پر محیط جنگ بندی کے ابتدائی مرحلے میں وسطی غزہ سے اسرائیلی افواج کا بتدریج انخلا اور بے گھر فلسطینیوں کی شمالی غزہ میں واپسی شامل ہے۔
اس معاہدے کے تحت غزہ میں جنگ بندی کے بعد روزانہ 600 ٹرک انسانی امداد کی اجازت دی جائے گی، 50 ٹرک ایندھن لے کر جائیں گے جبکہ 300 ٹرک شمال کی جانب مختص کیے جائیں گے، جہاں شہریوں کے لیے حالات خاص طور پر سخت ہیں۔
غزہ کے مکینوں کی گھروں کو واپسی
اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کے بعد فلسطینی شہریوں نے اپنے تباہ حال گھروں کا رخ کرلیا، قطری نشریاتی ادارے کے مطابق غزہ کے تباہ حال علاقے جو کئی ماہ سے ملبے کا ڈھیر بنے ہوئے تھے، وہاں اب غزہ کے رہائشیوں نے واپسی کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
اپنے ہزاروں پیاروں کو کھو دینے اور ڈیڑھ لاکھ سے زائد عزیزوں کے زخمی ہونے کے علاوہ گھر بار، مال و متاع سے محروم فلسطینی ملبے کے ڈھیروں کو پھر سے مسکن بنانے کے لیے پر امید دکھائی دیتے ہیں۔
ثالثی کرنیوالے ملک قطر کی جنگ بندی کی تصدیق
قطر نے غزہ میں جنگ بندی کے آغاز کی تصدیق کر دی، قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا آغاز ہو گیا ہے۔
ماجد الانصاری نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی کب شروع ہوگی، ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ آج رہا کیے جانے والے 3 یرغمالیوں کے نام اسرائیل کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔
وہ تین اسرائیلی شہری ہیں جن میں سے ایک رومانیہ اور دوسرا برطانوی شہریت کا ہے اور اس طرح جنگ بندی کا آغاز ہو گیا ہے۔
غزہ میں ہزاروں فلسطینی پولیس افسران تعینات
غزہ میں سرکاری میڈیا آفس کا کہنا ہے کہ ہزاروں فلسطینی پولیس افسران کو مختلف علاقوں میں سیکورٹی اور نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کے حکومتی منصوبے کے طور پر تعینات کر دیا گیا ہے۔
بیان کے مطابق حکومت کی وزارتیں اور ادارے معمول کی زندگی کی تیز اور بتدریج واپسی کو یقینی بنانے کے لیے حکومتی منصوبے کے مطابق کام شروع کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں، جنگ بندی کے نفاذ کے 7 دن بعد بے گھر افراد کی واپسی شروع ہو جائے گی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم اپنے لوگوں سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سرکاری ذرائع سے معلومات حاصل کریں، ممکنہ خطرات سے بچنے کے لیے تباہ شدہ علاقوں سے دور رہیں، اچانک گرنے سے بچنے کے لیے گولہ باری سے گھروں سے گریز کریں اور مشکوک راکٹوں اور اشیا سے دور رہیں۔’
جنگ بندی کے دن نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی
الجزیرہ کے مطابق اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ غزہ میں جنگ بندی اس وقت تک شروع نہیں ہوگی، جب تک حماس قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے پہلے مرحلے میں یرغمالیوں کے ناموں سے آگاہ نہیں کرتی۔
حماس نے یرغمالیوں کے نام جاری کر دیے
حماس کے ترجمان نے ٹیلی گرام پر ایک ’پوسٹ‘ میں کہا کہ حماس نے غزہ میں جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کے پہلے دن رہا کیے جانے والے 3 اسرائیلی قیدیوں کے نام جاری کر دیے ہیں۔
حماس کے مسلح ونگ قاسم بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ کا کہنا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت ہم نے 24 سالہ رومی گونن، 28 سالہ ایملی داماری اور 31 سالہ ڈورون شتنبر خیر کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جنگ بندی کے دن فلسطینیوں کی شہادتیں
غزہ کے شہری دفاع کے ترجمان محمود بسال نے بتایا کہ غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 19 افراد شہید ہوئے، جب کہ مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے 11 بجے تک جنگ بندی میں تاخیر کے دوران 36 زخمی ہوئے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ رفح میں ایک شخص، خان یونس میں 6، غزہ شہر میں 9 اور شمال میں 3 افراد شہید ہوئے۔
غزہ پر اسرائیل کی جنگ میں 7 اکتوبر 2023 سے اب تک کم از کم 46 ہزار 899 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 10 ہزار 725 زخمی ہو چکے ہیں، اس دوران حماس کی زیر قیادت حملوں کے دوران اسرائیل میں کم از کم ایک ہزار 139 افراد ہلاک ہوئے اور 200 سے زیادہ کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
حماس کے اقتدار سے مستقبل میں امن کو خطرہ ہے، اسرئیلی وزیر خارجہ
اسرائیلی وزیر خارجہ گدون سار نے کہا ہے کہ حکومت اپنے مقاصد کے لیے پرعزم ہے، جس میں قیدیوں کی رہائی کے علاوہ حماس کی حکومتی اور فوجی صلاحیتوں کو ختم کرنا شامل ہے، اگر حماس اقتدار میں رہی تو خطے میں عدم استحکام برقرار رہ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حماس غزہ پر حکمرانی جاری رکھتی ہے تو مستقبل میں دونوں فریقوں کے لیے امن، استحکام اور سلامتی نہیں ہوگی۔
خیال رہے کہ غزہ جنگ کے 15 ماہ اور 12 دن سے زیادہ عرصے میں اس سے قبل صرف ایک ہفتے کے لیے جنگ بندی (نومبر 2023) میں ہوئی تھی جس میں دونوں طرف سے قیدیوں کو رہا بھی کیا گیا تھا۔
جنگ بندی کی کابینہ سے توثیق لینے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے آفس سے جاری بیان کے مطابق کہا گیا تھا کہ حکومت نے قیدیوں کے رہائی کا منصوبہ ترتیب دے دیا ہے، معاہدہ جنگ کے اہداف کے حصول کے لیے مؤثر ہے۔
تاہم حماس کا کہنا تھا کہ اسرائیل اپنے جارحانہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے، اس نے صرف انسانیت سوز جنگ جرائم کا ارتکاب کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نے گزشتہ روز (ہفتے کو) فلسطین میں قید تمام قیدیوں کی رہائی پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’اسرائیل غزہ میں امریکی حمایت سے جنگ جاری رکھنے کا حق رکھتا ہے۔‘
نیتن یاہو نے ٹی وی پر نشر ہونے والے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’اگر ضرورت پڑی تو ہم امریکی حمایت کے ساتھ جنگ دوبارہ شروع کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا تھا کہ اتوار کو شروع ہونے والی 42 روزہ جنگی بندی عارضی ہے۔
نیتن یاہو نے کہا کہ اگر ہمیں جنگ دوبارہ شروع کرنے پر مجبور کیا گیا تو ہم مزید طاقت کے ساتھ حملہ کریں گے۔