• KHI: Fajr 5:58am Sunrise 7:18am
  • LHR: Fajr 5:36am Sunrise 7:01am
  • ISB: Fajr 5:44am Sunrise 7:11am
  • KHI: Fajr 5:58am Sunrise 7:18am
  • LHR: Fajr 5:36am Sunrise 7:01am
  • ISB: Fajr 5:44am Sunrise 7:11am

جنگ بندی اور قضیہ فلسطین: ’حماس نے وہ کر دکھایا جو پی ایل او اور فتح نہ کرسکے‘

شائع January 20, 2025

اتوار کو بلآخر مقامی وقت کے مطابق صبح 8 بجے غزہ میں جنگ بندی ہوگئی ہے۔ دونوں فریقین کے درمیان وہ امن معاہدے طے ہوچکا ہے جو قطری مذاکرات کاروں کے مطابق مئی میں بھی پیش کیا گیا تھا جس پر حماس نے تو اتفاق کیا تھا لیکن اسرائیل واک آؤٹ کرگیا تھا۔

مئی 2024ء اور جنوری 2025ء میں واحد فرق صرف ڈونلڈ ٹرمپ کا ہے۔ صدر جو بائیڈن نے امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس کو انٹرویو دیتے ہوئے صدارتی دفتر میں اپنے آخری ایام کے بارے میں بتایا کہ کیسے علیٰ الاعلان خود کو صہیونی کہنے والے بائیڈن، وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کی خودسری کے آگے بےبس تھے۔

معاملے کو سمجھنے کے لیے ڈیموکریٹک صدر جو بائیڈن کے انٹرویوز دیکھیے یا انہیں پڑھیں کہ کیوں وہ غزہ میں نسل کشی کی حمایت کرتے رہے، اسے فنڈنگ اور ہتھیار مہیا کرتے رہے۔ جب آخرکار امن معاہدے پر اتفاق ہوگیا تو جوبائیڈن نے نائب صدر کاملا ہیرس اور اسٹیٹ سیکریٹری انٹونی بلنکن کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کی۔

جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ امن معاہدے کے لیے انہیں یا نومنتخب ڈونلڈ ٹرمپ، کس کو زیادہ کریڈٹ جانا چاہیے تو واضح طور پر جو بائیڈن اس سوال پر اُکتائے ہوئے نظر آئے اور جواباً سوال کر ڈالا کہ ’کیا یہ لطیفہ ہے؟‘ صحافی کا یہ سوال اتنا دشوار نہیں تھا جتنا کہ کچھ صحافیوں نے انٹونی بلنکن کو اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی الوداعی بریفنگ کے دوران مشکل میں ڈال دیا اور انہیں غزہ کی نسل کشی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کی حمایت کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

یہ سچ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور پراپرٹی ٹائیکون اسٹیو ویٹکوف کی سربراہی میں مشرقِ وسطیٰ کی ٹیم نے امن معاہدے پر رضامندی کے لیے نیتن یاہو پر بہت دباؤ ڈالا۔ میڈیا رپورٹس میں سامنے آیا کہ اسٹیو ویٹکوف 11 جنوری کو اسرائیل پہنچے اور وزیراعظم سے ملاقات کا مطالبہ کیا۔ انہیں کہا گیا کہ آج یہودیوں کی عبادت کا دن سبت ہے اس لیے وزیراعظم سے ان کی ملاقات اگلے روز ہوپائے گی۔ لیکن اسٹیو ویٹکوف نے اسی دن ملاقات کے لیے زور دیا اور دوحہ جانے سے قبل اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کی جہاں مذاکرات کا حتمی مرحلہ ہونا طے پایا تھا۔

مبصرین کا خیال ہے کہ اسٹیو ویٹکوف اور وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کے درمیان اس ملاقات نے معاہدے کو حتمی انجام پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات کو درست انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے حوالے سے غلط تاثر نہ جائے۔ اپنے پہلے صدارتی دور میں ڈونلڈ ٹرمپ نے آخری ایام میں امریکی سفارتخانے کو یروشلم منتقل کیا تھا، گولان کی پہاڑیوں پٌر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کیا تھا، مغربی کنارے پر آبادکاری کے لیے رضامندی ظاہر کی تھی اور سب سے بڑھ کر بنیامن نیتن یاہو کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو ختم کیا تھا۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ٹرمپ کے پیش رو باراک اوباما کی بڑی سفارتی کامیابی تھی۔

سب سے آخر میں 2020ء اور 2021ء میں اسرائیل کے متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے ساتھ ابراہم معاہدے پر دستخط بھی اہم تھے جس کے تحت اسلامی تعاون تنظیم کے اراکین اور صہیونی ریاست کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ معاہدہ 7 اکتوبر 2023ء کو حماس کی جانب سے حملے کا اہم محرک ہوسکتا ہے۔

حماس کے ذرائع متعدد بار صحافیوں کو بتا چکے ہیں کہ ابراہم معاہدے کو مزاحمتی تنظیم نے خطرے کے طور پر دیکھا کیونکہ اس معاہدے نے دو ریاستی حل کے مطالبے کو پسِ پشت ڈال دیا اور فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کیا۔ مصر اور اردن جو دہائیوں قبل اسرائیل کو تسلیم کرچکے تھے، ابراہم معاہدے پر دستخط کے بعد مزید 4 مسلم ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے۔

سعودی عرب دو ریاستی حل کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے میں ہچکچا رہا تھا کیونکہ رپورٹس کے مطابق ولی عہد محمد بن سلمان نے بذاتِ خود امریکا کو بتایا کہ دو ریاستی حل کے بغیر وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کرسکتے کیونکہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو انہیں اپنی عوام کے شدید غم و غصے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد بھی بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ مسلم ممالک کے تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں جاری رہیں اور حماس کی قیادت کو خطرہ تھا کہ قضیہ فلسطین اور فلسطینی عوام کی زمین پر قبضہ عالمی ایجنڈے کا حصہ نہیں رہے گا بالخصوص اگر سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے تو یہ دیگر مسلم و غیر مسلم ممالک کے لیے راہ ہموار کردے گا جوکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ حماس نے مکمل منصوبہ بندی سے 7 اکتوبر 2023ء کو حملے کیے تاکہ فراموش کردیے گئے فلسطین پر قبضے اور ریاست کے مسائل کو ایک بار پھر علاقائی/عالمی ایجنڈے پر واپس لایا جاسکے۔ حماس کو ڈر تھا کہ ابراہم معاہدے کی صورت میں فلسطین پر جابرانہ قبضے کو فراموش کیا جارہا ہے۔

غزہ میں حماس کے رہنما یحییٰ سنوار نے شاید 7 اکتوبر کو اسرائیلی شہریوں پر حملے اور انہیں یرغمال بنانے کے منصوبے کی منظوری دی ہو لیکن وہ باخوبی واقف تھے کہ اسرائیلی تسلط اور اسرائیلی جیلوں میں قید ہزاروں فلسطینی کو روزانہ کی بنیاد پر کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ انہوں نے خود بھی 20 سال اسیری میں گزارے تھے۔

حماس، جس کی اسرائیل نے خاموش حمایت کی تھی تاکہ فلسطینی مزاحمت میں اتحاد کو توڑا جا سکے اور پی ایل او کی واحد فلسطینی قابل اعتبار نمائندگی کو چیلنج کیا جا سکے، اس نے آخرکار وہ وہ کام کر دکھایا جو پی ایل او اور اس کے اہم رکن فتح کئی سالوں تک نہیں کر سکے اور فلسطین اور اس کی آزادی کو ایک بار پھر عالمی ایجنڈے پر لے آئی۔

ہاں ہزاروں فلسطینیوں نے اپنی جانوں کی قربانی دی ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے لیکن ان کی قربانیوں نے دنیا بھر میں آزادی کا احترام کرنے والے لوگوں کو باور کروایا کہ صہیونی ریاست ایک نسل پرست جابرانہ قوت ہے۔ اب بہت سے لوگوں کے نزدیک صہیونیوں کے ڈرامے کی قلعی کھل چکی ہے اور وہ اب ان کے مظلومیت کے ڈھونگ کا یقین نہیں کرتے۔

دوسری جانب مغربی ممالک میں لاکھوں افراد نے نسل کشی کی حمایت کرنے والی اپنی حکومتوں کے خلاف جاتے ہوئے احتجاج کرکے فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کیا۔

کل ایک نیا دن ہوگا اور علاقائی اور عالمی سیاست کیسی ہوگی اس حوالے سے کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن آج کا دن غزہ کی عوام کے نام ہے جنہوں نے اپنے گھر، ہسپتال، یونیورسٹیز، جانوں اور اعضا، ہر طرح کی قربانیاں دی ہیں تاکہ آزادی کی امید کی شمع روشن رہ سکے۔

غزہ کی مظلوم عوام کی جانب سے دی گئی قربانیاں، ان کے ہیلتھ کیئر ورکرز اور ڈاکٹرز کی اسرائیلی بمباری کے دوران بھی اپنی ڈیوٹی انجام دینے نے ناقابلِ یقین حد تک پختہ عزم کو ظاہر کیا جبکہ نسل پرست ریاست کے جبر کے خلاف مزاحمت اور انسانی جذبے کی غیر معمولی طاقت کی عکاسی کی۔

گریٹر اسرائیل کا منصوبہ جس پر عمل درآمد پر کام جاری ہے جبکہ ایران کی قیادت میں مزاحمتی تنظیموں کا خطے میں اثرورسوخ کمزور ہوچکا ہے، ایسے میں غاصبانہ قوت کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔

تاہم غزہ کے عوام کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی اسرائیلی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں اور جابرانہ تسلط کے خلاف ان کی مزاحمت جاری ہے۔ 21ویں کے جدید دور کی نسل کشی کے مناظر عکس بند کرتے ہوئے 200 صحافی شہید ہوگئے لیکن مقامی صحافیوں نے دنیا بھر میں لوگوں کے اسمارٹ فونز تک غزہ کے مناظر پہنچائے جبکہ اس پورے معاملے نے مغربی میڈیا کی جانبداری کو آشکار کیا۔ ان کی یہ مزاحمت امید پیدا کرتی ہے پھر چاہے یہ امید کتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عباس ناصر

عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 20 جنوری 2025
کارٹون : 19 جنوری 2025