بائیڈن نے اپنے اہل خانہ اور کئی عہدے داروں کو ’قبل از وقت‘ معافی دے دی
امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے آخری اقدامات میں نئی ٹرمپ انتظامیہ کے تحت ’سیاسی محرکات پر مبنی مقدمات‘ کے خدشات کے پیش نظر متعدد عہدیداروں اور اپنے خاندان کے قریبی افراد کو ’قبل از وقت‘ معافی دے دی۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی عالمی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس میں اپنے آخری گھنٹوں میں ایک غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے جو بائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے 6 جنوری 2021 کو یو ایس کیپیٹل ہل پر ہونے والے پرتشدد حملے کی تحقیقات کرنے والی امریکی ایوان نمائندگان کی کمیٹی کے ارکان، عملے اور عینی شاہدین کو بھی معافی دے دی۔
جو بائیڈن نے ایک بیان میں کہا کہ ’ان سرکاری ملازمین نے عزت اور وقار کے ساتھ ہماری قوم کی خدمت کی ہے اور وہ غیر منصفانہ اور سیاسی محرکات پر مبنی مقدمات کا نشانہ بننے کے مستحق نہیں‘، یہ غیر معمولی حالات ہیں اور میں اپنے ضمیر کی آواز سنتے ہوئے خاموش نہیں رہ سکتا۔
گزشتہ شب بطور امریکی صدر حلف اٹھانے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے بار بار اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف ’انتقام‘ کا وعدہ کیا تھا اور کچھ کو مجرمانہ کارروائی کی دھمکی بھی دی تھی۔
سبکدوش ہونے والے صدر جو بائیڈن کے ذریعے معافی پانے والوں میں کووڈ 19 کے سابق مشیر انتھونی فاؤکی اور ریٹائرڈ جنرل مارک ملی بھی شامل ہیں۔
فاؤچی کووڈ وبائی مرض کے خلاف امریکا کی ’جنگ‘ کا چہرہ بن گئے تھے، لیکن ٹرمپ کے پہلے دور میں اس بیماری کے بارے میں ان کی براہ راست بات چیت نے انہیں ریپبلکن پارٹی کے ساتھ تنازع میں ڈال دیا۔
اس بات چیت نے سائنسدان کو دائیں بازو کے بہت سے لوگوں کے لیے نفرت انگیز شخصیت میں تبدیل کر دیا، جن میں ٹرمپ کے اتحادی اور دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک بھی شامل ہیں، جنہوں نے بار بار فاؤکی کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا تھا۔
ٹرمپ اس وقت برہم ہوئے جب ان کے پہلے دور میں جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین مارک ملی نے صحافی باب ووڈورڈ کو بتایا کہ ٹرمپ ’بنیادی طور پر فاشسٹ‘ اور ’اس ملک کے لیے سب سے خطرناک شخص‘ ہیں۔
جنرل ملی نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے کیپٹل ہل حملے کے بعد اپنے چینی ہم منصب کو خفیہ طور پر فون کیا تھا تاکہ بیجنگ کو یقین دلایا جاسکے کہ امریکا ’مستحکم‘ ہے اور اس کا چین پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
ایک بیان میں مارک ملی نے جو بائیڈن کے ایگزیکٹو اقدام پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
سابق جنرل نے کہا کہ میں ان لوگوں سے لڑنے میں وقت صرف نہیں کرنا چاہتا جو خدا نے مجھے دیا ہے جو ناانصافی سے انتقام لینے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق انتھونی فاؤکی نے بھی معافی پر جو بائیڈن کا شکریہ ادا کیا لیکن اس بات پر زور دیا کہ ’میں نے کوئی جرم نہیں کیا‘۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر نے فاؤکی پر زور دیا ہے کہ ’اگر انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا تو وہ معافی واپس لے لیں‘۔
جو بائیڈن نے لکھا کہ بے بنیاد اور سیاسی محرکات پر مبنی تحقیقات نشانہ بنائے گئے افراد اور ان کے اہل خانہ کی زندگیوں، حفاظت اور مالی تحفظ کو تباہ کرتی ہیں۔
خاندان کے افراد کے لیے معافی
پیر کے روز کیے گئے اقدامات بائیڈن کی جانب سے اپنے عہدے کے آخری دنوں میں دی جانے والی معافیوں اور غلطیوں میں تازہ ترین اقدامات تھے، جن میں ایک دن میں تقریباً 2500 افراد کی سزاؤں کو کم کرنے اور اپنے بیٹے ہنٹر کی ’متنازع‘ معافی بھی شامل ہے۔
لیکن اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ امریکی صدر نے اپنی صدارت کے آخری لمحات میں اپنے ہی خاندان کے افراد بشمول اپنے بھائیوں جیمز بی بائیڈن، فرانسس ڈبلیو بائیڈن، بہن ویلری بائیڈن اوونز اور ان کے شوہر جان ٹی اوونز اور بھابھی سارہ جونز بائیڈن کو مکمل اور غیر مشروط معافی جاری کی۔
معافیوں کے ساتھ جاری ایک بیان میں سبکدوش ہونے والے صدر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ’میرے خاندان کو مسلسل حملوں اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کا مقصد صرف مجھے نقصان پہنچانا ہے، جو بدترین قسم کی جانبدارانہ سیاست ہے، بدقسمتی سے میرے پاس یہ یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ حملے ختم ہوجائیں گے۔‘
جو بائیڈن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ میں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں اور پرامید ہوں کہ ہمارے قانونی اداروں کی طاقت بالآخر سیاست پر غالب آئے گی، لیکن بے بنیاد اور سیاسی محرکات پر مبنی تحقیقات نشانہ بنائے گئے افراد اور ان کے اہل خانہ کی زندگیوں، حفاظت اور مالی تحفظ کو تباہ کرتی ہیں۔
یہاں تک کہ جب لوگوں نے کچھ بھی غلط نہیں کیا ہے اور بالآخر انہیں بری کر دیا جائے گا، تو صرف تحقیقات یا مقدمہ چلانے کی حقیقت ان کی ساکھ اور مالیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ان معافیوں کے اجرا کو اس اعتراف کے طور پر غلط نہیں سمجھا جانا چاہیے کہ وہ کسی غلط کام میں ملوث ہیں اور نہ ہی قبولیت کو کسی جرم کے اعتراف کے طور پر غلط سمجھا جانا چاہیے۔