’ٹرمپ کی تقریب میں شرکت کے خواہشمند مودی کو مدعو نہیں کیا جانا شرمناک ہے‘
ایک دور تھا جب دہلی میں کیا کچھ ہورہا ہے، اس حوالے سے سب سے باخبر دہلی میں برطانوی سفارت خانہ ہوا کرتا تھا۔ پھر اس کی جگہ سوویت نے لے لی اور اب سب سے باخبر امریکی سفارت خانہ ہے جو اس کام میں بہترین ہے۔
بھارت تمام اہم ممالک سے مناسب فاصلہ رکھتے ہوئے محتاط انداز میں اپنے اصولوں پر سمجھوتا کیے بغیر اور سفارتی اقدار کے مطابق تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات ہمیشہ سے مشکل رہے ہیں لیکن بھارت نے انہیں سنبھالنے میں تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تمام خبریں شرمناک ہیں کہ بھارتی وزیراعظم ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں مدعو نہیں کیا گیا۔
صرف امید ہی کی جاسکتی ہے کہ دعوت نامے کے حصول کی بھارتی درخواست محض کہانی ہی ہو کیونکہ اس درخواست کا رد کیا جانا جواہرلال نہرو کے بھارت کی سفارتی تعظیم کے لیے اچھا نہیں۔ یہ حقیقت کہ نریندر مودی کی جگہ بھارتی وزیرخارجہ نے تقریب حلف برداری میں شرکت کی، اسے سفارتی کامیابی نہیں سمجھنا چاہیے۔
عالمی تسلط کے حامی اور انتہائی دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے ہر طرح کے رہنماؤں نے اس تقریب میں شرکت کی جوکہ بہت سے امیر اور غریب ممالک کے لیے تقریب میں شرکت نہیں کرنے کا ایک بہترین بہانہ تھا اور بہت سے ممالک نے یہی بہانہ کرکے شرکت نہیں کی۔
میڈیا نے مکیش امبانی کو بھی بھرپور کوریج دی جنہیں ڈونلڈ ٹرمپ نے بذات خود مدعو کیا۔ اب اس ملاقات کے حوالے سے ہمیں امریکا کے سرکاری مؤقف کا انتظار کرنا چاہیے۔
دونوں کی پہلے بھی ملاقات ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ مکیش امبانی نے بھارت کی ایک بین الاقوامی تقریب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ کی بھی میزبانی کی تھی۔ اگر مجھے ٹھیک یاد ہو تو مکیش امبانی اور ان کے بھائی انیل امبانی کو بل کلنٹن اور جارج بش کی تقریب حلف برداری میں بھی مدعو کیا گیا تھا۔ دوسری جانب ہیلری کلنٹن نے امبانی کی شادی میں بھنگڑا بھی کیا تھا۔
امریکی سیاستدان پیسے کے حصول کی کوششوں میں رہتے ہیں اور اپنے حلف لینے سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ مختلف مواقع پر اربوں ڈالرز جمع بھی کرچکے ہیں۔ اب یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ مشکل معاشی حالات میں، ٹرمپ کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کے لیے بھارت کتنی دولت خرچ کرسکتا ہے۔
یہ دیکھنا دلچسپ ہے کہ مودی کے قریبی سمجھے جانے والے دو بزنس ٹائیکونز امریکا کے ساتھ کتنے مختلف تعلقات میں ہیں۔ مکیش امبانی اور گوتم اڈانی وہ دو شخصیات تھیں جنہوں نے من موہن سنگھ کے بعد نریندر مودی کو انتخابات میں کامیابی دلوانے کی بھرپور کوشش کی اور وہ اس مقصد میں کامیاب رہے۔
دونوں نریندر مودی کے قریبی دوست سمجھے جاتے تھے لیکن پھر گوتم اڈانی کے امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات خراب ہوگئے اور اب کرپشن اسکینڈل میں گرفتاری کے خوف سے وہ بھارت نہیں آرہے۔ مکیش امبانی روسی کرنسی ریوبل کی ادائیگی کرکے روسی تیل خرید رہے ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری تقریبِ حلف برداری میں مدعو کیا گیا۔
جب ہم اسکول میں تھے تو امریکی صدر جان ایف کینیڈی لوگوں کو اتنے ہی عزیز تھے جتنی کہ برطانوی ملکہ۔ لیکن پھر سوویت یونین نے یوری گاگرین کو خلا میں بھیج دیا جس نے دنیا کو اپنے سحر میں جکڑا اور یوں سوویت کو بھی لوگ پسند کرنے لگے۔ اس وقت کے سوویت وزیراعظم نکیتا کروسچیف کے ساتھ محتاط تعلقات استوار کرکے عالمی تباہی سے بچنے میں جان کینیڈی کی تعریف کی گئی۔
کینیڈی کے مطابق عالمی امن کے لیے اپنے حریف کی تذلیل نہیں کی جانی چاہیے لیکن آج بین الاقوامی تعلقات میں یہ اہم عنصر موجود نہیں۔ امریکی صدر رونالڈ ریگن کی جانب سے ’شیطانی روسی سلطنت‘ اور جو بائیڈن کا ولادیمیر پیوٹن کو مختلف ناموں سے بلانا، بلاشبہ جان کینیڈی کو گراں گزرتا۔
یہی وجہ تھی کہ جب جان ایف کینیڈی کو قتل کیا گیا تو بھارتی ان کی موت پر خوب روئے۔ اس وقت بھارت، دولت یا فوجی طاقت کی بنیاد پر دوستوں کا انتخاب کرنے کے بجائے نئی اور غریب جمہوریتوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر زیادہ توجہ دے رہا تھا۔
مجھے اپنی زندگی میں ایک ہی امریکی صدر کو قریب سے دیکھنے کا تجربہ ہوا اور وہ تھے جمی کارٹر۔ 1978ء میں ان کا ایئر فورس ون جہاز ہمارے سروں کے اوپر سے گزرا جب ہم جواہرلال نہرو یونیورسٹی کی ایک کھلی فضا میں چائے کی دکان جسے کمال کمپلیکس کہتے تھے، میں موجود تھے۔
بھارتی حکومت بالخصوص اس کی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے دہلی کی بائیں بازو کی طلبہ تحریک سے خوفزدہ تھی۔ امریکا کی حمایت یافتہ مورارجی دیسائی کی قلیل مدتی حکومت بھی اسی طرح کا خوف پایا جاتا تھا۔ آزادی کے بعد سے کانگریس کے طویل مدت اقتدار کو توڑنے کے لیے مورارجی دیسائی کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے جمی کارٹر کی سیکرٹ سروس کی درخواست پر جواہرلال نہرو یونیورسٹی کے ہاسٹلز کے ٹیرس میں بندوق بردار نشانے باز کھڑے کیے تھے۔
حکومت یہ بھول چکی تھی کہ بھارتی دائیں بازو بشمول جواہرلال نہرو یونیورسٹی کے طلبہ نے ماسکو کی حمایت یافتہ اندرا گاندھی کی پارٹی کے بجائے پرو مغرب جناتا پارٹی کی انتخابی مہم کی حمایت کی تھی۔ خیر جب جہاز اپنی گرج کے ساتھ ایئرپورٹ جانے کے لیے یونیورسٹی کیمپس سے گزر چکا تو ایک ناراض طالب علم نے پتھر اٹھایا اور اسے جتنا ہوا میں پھینک سکتا تھا، اس نے پھینکا۔
اس حرکت پر طلبہ میں یہ مزاحیہ بحث چھڑ گئی کہ آیا اس کا پتھر جمی کارٹر کے جہاز سے ٹکرایا ہوگا یا نہیں۔ بحث کا اختتام کچھ یوں ہوا کہ عموماً کووں کو بھگانے کے لیے جو بڑی غلیل استعمال کی جاتی ہیں، جہاز کو پتھر مارنے کے لیے وہی موزوں ہوتی ہے۔
پھر جمی کارٹر کے بعد جو مہمان آئے، انہیں تو زیادہ حفاظت کی ضرورت تھی۔ تہران سے فرار کے بعد شاہ ایران کے پاس پناہ کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی جبکہ ان کی حالت شیخ حسینہ واجد کی طرح خراب تھی جنہیں بنگلہ دیش کی سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں کے آگے ہتھیار ڈال کر اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔
جمی کارٹر نے مورارجی دیسائی کو مشورہ دیا کہ وہ شاہ ایران کا اچھے سے استقبال کریں۔ شاہ ایران بھارت آئے۔ جواہرلال نہرو یونیورسٹی کے کچھ مظاہرین کو کرن بیدی کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا جو اس وقت ٹریفک پولیس کا چارج سنبھال رہی تھیں۔ طلبہ کو تہاڑ جیل بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے اسٹریٹ ڈرامے کرتے ہوئے دن گزارے۔
ایک دن شاہ ایران نے مغل دور کے شاہ کار لال قلعے کا دورہ کیا جہاں سے گزشتہ فارسی حکمران نے مشہور مور کا تخت لے لیا تھا۔ یہ مغل یادگار پر ان کا آخری دورہ تھا۔ معزول شاہ ایران کی موت جلا وطنی میں ہوئی جہاں ان کے تمام دوستوں بشمول بھارت، سب نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔
جمی کارٹر کو رونالڈ ریگن سے انتخابات میں شکست ہوئی۔ اپنی ہی جماعت نے مورارجی دیسائی کو برطرف کیا اور اندرا گاندھی کی اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار کی۔ اس کے علاوہ سوویت یونین جنہوں نے بھارت میں ہنگامہ آرائی سے خوب فائدہ اٹھایا تھا لیکن افغانستان اور ایران میں اتنی کامیاب نہیں ہوپائی کیونکہ سی آئی اے کی مدد سے ملاؤں نے سوویت نواز تودہ پارٹی کا پتہ صاف کردیا۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بھارت نے مغرب کی حمایت اور خوشنودی کے لیے غیر وابستہ ممالک کی تحریک اور سارک پر سمجھوتا کرلیا۔ جب جارج بش کی دنیا بھر میں ساکھ بدنام تھی اور ان کے اپنے ملک میں بھی عراق جنگ کے باعث انہیں تنقید کا نشنہ بنایا جارہا تھا، تب 2006ء میں کانگریس کے وزیراعظم من موہن سنگھ نے ان کا خیرمقدم کیا اور مہمان سے کہا کہ ’ہم بھارتی آپ سے محبت کرتے ہیں‘۔ اس پر کمیونسٹ رہنما نے طنزیہ جملہ کسا جوکہ ایک یادگاری لمحہ بن گیا تھا، انہوں نے من موہن سنگھ سے کہا، ’آپ صرف اپنے لیے بولیں‘۔
سفارتی سطح پر چاپلوسی سے بھارت کو فائدہ پہنچا نہ اس سے نریندر مودی کو کوئی مدد ملی۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔