ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر حملہ کرنے والے اپنے 1500 سزا یافتہ ’حامیوں‘ کو معاف کر دیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حکم نامے میں 4 سال قبل کیپیٹل پر حملہ کرنے والے اپنے تقریباً 1500 حامیوں کو معاف کر دیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق گزشتہ شب حلف اٹھانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کی جانب ہجرت کو روکنے، ماحولیاتی قوانین، نسلی اور صنفی تنوع کے اقدامات کو واپس لینے کے لیے متعدد انتظامی اقدامات پر دستخط کیے، اور حکم نامے جاری کیے۔
6 جنوری 2021 کو امریکی کیپیٹل پر حملہ کرنے والے حامیوں کو معاف کرنے کا ان کا فیصلہ یقینی طور پر پولیس، قانون سازوں اور دیگر افراد کو مشتعل کرے گا، جن کی زندگیوں کو جدید امریکی تاریخ میں ایک بے نظیر واقعے کے دوران خطرے میں ڈال دیا گیا تھا۔
اس واقعے میں تقریباً 140 پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا گیا تھا، جن میں سے کچھ پر کیمیائی چھڑکاؤ کیا گیا تھا اور کچھ کو پائپوں، کھمبوں اور دیگر ہتھیاروں سے نشانہ بنایا گیا تھا، افراتفری کے دوران 4 افراد ہلاک ہوئے، جن میں ٹرمپ کا ایک حامی بھی شامل تھا، جسے پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
معافی
ڈونلڈ ٹرمپ نے 6 جنوری 2021 کو امریکی کیپیٹل پر دھاوا بولنے والے تقریباً 1500 افراد کو معاف کر دیا، جو ان لوگوں کی حمایت میں نکلے تھے جنہوں نے قانون سازوں کو 2020 کے انتخابات میں ان کی شکست کی تصدیق کرنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہوئے پولیس پر حملہ کیا تھا۔
ٹرمپ نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ وہ آج رات باہر آئیں گے، ہم اس کی توقع کر رہے ہیں۔
اس دور رس کارروائی میں انتہائی دائیں بازو کی ’پراؤڈ بوائز‘ اور ’اوتھ کیپرز‘ تنظیموں کے 14 ارکان کی سزاؤں میں بھی کٹوتی کی گئی ہے، جن میں سے کچھ کو غداری کی سازش کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔
دستاویز میں امریکی اٹارنی جنرل کو فسادات سے متعلق زیر التوا مقدمات کو واپس لینے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔
امیگریشن
ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر غیر قانونی امیگریشن کو قومی ایمرجنسی قرار دینے، جرائم پیشہ گروہوں کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دینے اور ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کے امریکی نژاد بچوں کی خودکار شہریت کو ختم کرنے کے حکم ناموں پر بھی دستخط کیے۔
ایک عہدیدار نے بتایا کہ امریکی پناہ گزینوں کی دوبارہ آبادکاری سے متعلق ٹرمپ کے حکم نامے میں اس پروگرام کو کم از کم 4 ماہ کے لیے معطل کر دیا جائے گا، اور سیکیورٹی کا جائزہ لینے کا حکم دیا جائے گا، تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ آیا بعض ممالک کے مسافروں پر سفری پابندی عائد کی جانی چاہئیں یا نہیں۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ امریکا میں بڑی تعداد میں تارکین وطن کو جذب کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
بائیڈن کے اقدامات کو ختم کرنا
اسپورٹس ارینا میں ریلی کے دوران ٹرمپ نے پچھلی انتظامیہ کے 78 ایگزیکٹو اقدامات منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ میں پچھلی انتظامیہ کے تقریباً 80 تباہ کن اور بنیاد پرست انتظامی اقدامات کو واپس لوں گا۔
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ ایک حکم نامے پر دستخط کریں گے، جس میں ہر ایجنسی کو ہدایت دی جائے گی کہ وہ بائیڈن انتظامیہ کے تحت ’سیاسی استحصال‘ سے متعلق تمام ریکارڈ محفوظ رکھے۔
اس فیصلے کا اطلاق سابق صدر جو بائیڈن کے 2021 میں عہدہ سنبھالنے کے پہلے دن سے لے کر گزشتہ ہفتے تک کے انتظامی احکامات پر ہوتا ہے، اس میں کووڈ ریلیف سے لے کر صاف توانائی کی صنعتوں کے فروغ تک کے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
تنوع
ٹرمپ نے ان انتظامی احکامات کو بھی منسوخ کر دیا جن میں تنوع، مساوات اور شمولیت (ڈی ای آئی) کو فروغ دیا گیا تھا اور ایل جی بی ٹی کیو + لوگوں اور نسلی اقلیتوں کے حقوق کو فروغ دیا گیا تھا۔
جو بائیڈن کی جانب سے دستخط کیے گئے 78 ایگزیکٹو آرڈرز میں کم از کم ایک درجن ایسے اقدامات شامل ہیں، جن میں نسلی مساوات کی حمایت اور ہم جنس پرستوں اور خواجہ سراؤں کے خلاف امتیازی سلوک کا مقابلہ کرنا بھی شامل ہے۔
ٹک ٹاک پر پابندی کا خاتمہ
نئے امریکی صدر نے مقبول مختصر ویڈیو ایپ ٹک ٹاک پر پابندی کو 75 دن کے لیے مؤخر کرنے کے حکم نامے پر دستخط کیے، جو 19 جنوری 2025 کو بند ہونے والی تھی، حکم نامے میں اٹارنی جنرل کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ٹک ٹاک سے متعلق قانون پر عمل درآمد نہ کریں تاکہ میری انتظامیہ کو ٹک ٹاک کے حوالے سے مناسب لائحہ عمل طے کرنے کا موقع مل سکے۔
ریگولیٹری، بھرتیاں منجمد
ڈونلڈ ٹرمپ نے سرکاری بھرتیوں اور نئے وفاقی قواعد و ضوابط کو منجمد کرنے کے احکام پر دستخط کیے، ساتھ ہی ایک حکم نامے پر دستخط کیے، جس میں وفاقی ملازمین کو فوری طور پر کُل وقتی ذاتی طور پر کام پر واپس جانے کی ضرورت ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ میں فوری طور پر ریگولیشن فریز کا نفاذ کروں گا، جو بائیڈن بیوروکریٹس کو ریگولیٹ کرنے سے روک دے گا، ہم عارضی بھرتیوں کو منجمد بھی کریں گے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ہم صرف اہل افراد کو بھرتی کر رہے ہیں، جو امریکی عوام کے وفادار ہیں۔
اس اقدام سے وائٹ کالر سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد ریموٹ ورکنگ انتظامات سے دستبردار ہونے پر مجبور ہو جائے گی، جس سے کووڈ 19 وبائی امراض کے ابتدائی مراحل میں شروع ہونے والے رجحان کو پلٹ دیا جائے گا۔
ٹرمپ کے کچھ اتحادیوں کا کہنا ہے کہ کام پر واپسی کے مینڈیٹ کا مقصد سول سروس کو ختم کرنے میں مدد کرنا ہے، جس سے ٹرمپ کے لیے طویل عرصے سے خدمات انجام دینے والے سرکاری ملازمین کی جگہ وفاداروں کو تعینات کرنا آسان ہو جائے گا۔
افراط زر
ڈونلڈ ٹرمپ نے تمام ایگزیکٹو محکموں اور ایجنسیوں کو حکم دیا کہ وہ امریکی عوام کو ہنگامی طور پر قیمتوں میں ریلیف فراہم کریں اور امریکی کارکنوں کی خوشحالی میں اضافہ کریں، اقدامات میں قواعد و ضوابط اور ماحولیات (کلائمیٹ) کی پالیسیوں میں کٹوتی شامل ہے، جو اخراجات میں اضافہ کرتے ہیں، رہائش کی لاگت کو کم کرنے اور رہائش کی فراہمی کو بڑھانے کے لیے اقدامات تجویز کرتے ہیں۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 4 سال میں بائیڈن انتظامیہ کی تباہ کن پالیسیوں نے امریکی عوام پر تاریخی افراط زر کا بحران مسلط کیا ہے۔
ماحولیات
ٹرمپ نے پیرس ماحولیاتی معاہدے سے دستبرداری پر بھی دستخط کیے، جس میں اقوام متحدہ کو ایک خط بھی شامل ہے، جس میں انخلا کی وضاحت کی گئی ہے۔
یہ اعلان، جس کی توقع 5 نومبر کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی کے بعد سے وسیع پیمانے پر کی جا رہی تھی، عالمی درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافے سے بچنے کے معاہدے کے مرکزی مقصد کو مزید خطرے میں ڈالتا ہے، ایک ایسا ہدف جو گزشتہ سال کے ریکارڈ پر سب سے گرم ترین ہدف کے مقابلے میں اور بھی کمزور دکھائی دیتا ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ میری انتظامیہ کی یہ پالیسی ہے کہ امریکا اور امریکی عوام کے مفادات کو اولین ترجیح دی جائے۔
انہوں نے بائیڈن کی جانب سے 2023 کے اس میمو کو منسوخ کر دیا، جس میں آرکٹک میں تقریباً 16 ملین ایکڑ رقبے پر تیل کی کھدائی پر پابندی عائد کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت کو وفاقی زمینوں اور پانیوں میں توانائی کی تلاش اور پیداوار کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، اور الیکٹرک وہیکل (ای وی) مینڈیٹ کو ختم کرنا چاہیے۔
عالمی ادارہ صحت سے علیحدگی
ایک اور حکم نامے میں امریکا کو عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) سے یہ کہتے ہوئے واپس لے لیا گیا کہ عالمی ادارہ صحت نے کووڈ 19 وبائی مرض اور صحت کے دیگر بین الاقوامی بحرانوں سے غلط طریقے سے نمٹا ہے۔
یہ منصوبہ، جو ٹرمپ کی جانب سے اقوام متحدہ کے ادارہ صحت پر دیرینہ تنقید سے مطابقت رکھتا ہے، امریکا کی عالمی صحت پالیسی میں ڈرامائی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے اور واشنگٹن کو وبائی امراض سے لڑنے کی بین الاقوامی کوششوں سے مزید الگ تھلگ کر دیتا ہے۔
ٹرمپ نے ادارے کے متعدد ناقدین کو صحت عامہ کے اعلیٰ عہدوں کے لیے نامزد کیا ہے، جن میں رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر بھی شامل ہیں، جو صحت اور انسانی خدمات کے وزیر کے عہدے کے لیے تیار ہیں، جو سی ڈی سی اور ایف ڈی اے سمیت تمام بڑے امریکی صحت کے اداروں کی نگرانی کرتے ہیں۔
حکومت کی کارکردگی
ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو ایکشن پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی (ڈوج) کے نام سے ایک مشاورتی گروپ تشکیل دیا گیا ہے، جس کا مقصد امریکی حکومت میں ڈرامائی کٹوتی کرنا ہے اور اس کے آپریشنز کو چیلنج کرتے ہوئے فوری طور پر مقدمات دائر کیے جائیں گے۔
’ڈوج‘ نامی اس گروپ کو ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک چلا رہے ہیں اور اس کا مقصد تمام وفاقی ایجنسیوں کو ختم کرنا اور وفاقی حکومت کی تین چوتھائی ملازمتوں میں کٹوتی کرنا ہے۔
’ڈیپ اسٹیٹ‘ بھی نشانہ
امریکی صدر نے سیاسی مخالفین کے خلاف حکومت کے ’ہتھیاروں کے خاتمے‘ کی دستاویز پر دستخط کیے، حکم نامے میں اٹارنی جنرل کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گزشتہ 4 سال کے دوران وفاقی حکومت کی سرگرمیوں کی تحقیقات کریں جن میں محکمہ انصاف، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن اور فیڈرل ٹریڈ کمیشن شامل ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہتھیاروں سے لیس کرنے اور انٹیلی جنس کمیونٹی کو ہتھیاروں سے لیس کرنے سے متعلق ماضی کی بدانتظامیوں کی نشاندہی کرے گی، اور انہیں درست کرنے کے لیے مناسب کارروائی کرے گی۔
اظہار رائے کی آزادی
نئے صدر نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد اظہار رائے کی آزادی کو بحال کرنا اور وفاقی سنسرشپ کو ختم کرنا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کا مقابلہ کرنے کی آڑ میں وفاقی حکومت نے امریکی شہریوں کے آئینی طور پر محفوظ اظہار رائے کے حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔
ٹرمپ اور ان کے ریپبلکن اتحادیوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے سابق صدر بائیڈن کی انتظامیہ پر آن لائن پلیٹ فارمز پر اظہار رائے کی آزادی کو دبانے کی حوصلہ افزائی کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
قومی توانائی ایمرجنسی
ٹرمپ نے قومی توانائی ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے تیل کے اسٹریٹجک ذخائر کو بھرنے اور امریکی توانائی کو پوری دنیا میں برآمد کرنے کا وعدہ کیا۔
انہوں نے امریکی تیل اور گیس کی پیداوار کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے ایک وسیع منصوبہ پیش کیا، جس میں قومی توانائی کی ہنگامی صورتحال کا اعلان، اضافی ضوابط کو ختم کرنے اور ماحولیاتی تبدیلی سے لڑنے کے لیے ایک بین الاقوامی معاہدے سے امریکا کو واپس لینا شامل ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ ان احکامات سے صارفین کے لیے قیمتوں کو کم کرنے اور امریکی قومی سلامتی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے الاسکا میں تیل اور گیس کی ترقی کو فروغ دینے کے احکام پر بھی دستخط کیے، جس سے آرکٹک کی وسیع زمینوں اور پانیوں کو ڈرلنگ سے بچانے کے لیے بائیڈن کی کوششوں کو ختم دیا گیا۔
وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ کے مطابق امریکا پیرس ماحولیاتی معاہدے سے بھی دستبردار ہو جائے گا اور ونڈ فارمز کو لیز پر دینا بند کر دے گا، اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ الیکٹرک گاڑیوں کے مینڈیٹ کو منسوخ کر دیں گے۔
یہ اقدام واشنگٹن کی توانائی پالیسی میں ڈرامائی یو ٹرن کا اشارہ ہے، کیونکہ بائیڈن نے معدنی ایندھن سے دور منتقلی کی حوصلہ افزائی کرنے اور گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنے میں امریکا کو ’رہنما‘ کے طور پر سامنے لانے کی کوشش کی تھی۔