لاس اینجلس کے شمال میں بھی آگ بھڑک اٹھی،31 ہزار افراد کو علاقہ خالی کرنے کا حکم
امریکی ریاست لاس اینجلس کے شمالی علاقے میں بھی جنگل کی آگ بھڑکنے پر ہزاروں افراد کو نقل مکانی کا حکم دے دیا گیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق کاسٹیک جھیل کے قریب پہاڑیوں کو خوفناک شعلوں نے نگلنا شروع کر دیا، جو تیزی سے پھیل رہے ہیں اور صرف چند گھنٹوں میں 5 ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبے کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔
آگ کو تیز اور خشک ہوائیں بھڑکانے میں مدد فراہم کر رہی ہیں، جس سے دھوئیں اور خطرناک انگاروں کا بڑا ڈھیر شعلوں کی طرح پھیلتا جارہا ہے۔
لاس اینجلس سے تقریباً 56 کلومیٹر شمال میں اور سانتا کلیریٹا شہر کے قریب واقع جھیل کے آس پاس کے 31 ہزار افراد کو انخلا کا حکم دیا جاچکا ہے۔
ایک شخص نے اپنی گاڑی کو ڈھانپتے ہوئے نشریاتی ادارے ’کے ٹی ایل اے‘ کو بتایا کہ میں صرف دعا کر رہا ہوں کہ ہمارا گھر جل نہ جائے۔
آگ لگنے اور پھیلنے کا یہ واقعہ لاس اینجلس میں لگنے والی آگ کے ڈھائی ہفتے بعد پیش آیا ہے، جس میں 28 افراد ہلاک اور ہزاروں گھروں کے ڈھانچے تباہ ہو گئے تھے۔
لاس اینجلس کاؤنٹی شیرف ڈپارٹمنٹ کے رابرٹ جینسن نے ’ہیوز فائر‘ نامی نئی آگ سے متاثرہ علاقے میں موجود تمام افراد پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور علاقے سے نکل جائیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ’پالیساڈیز اور ایٹن آگ‘ میں لوگوں کے ان احکام پر عمل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے ہونے والی تباہی دیکھی ہے، میں ہماری کمیونٹی میں بھی ایسا ہی منظر نہیں دیکھنا چاہتا، اگر آپ کو انخلا کا حکم جاری کیا گیا ہے تو براہ مہربانی باہر نکل جائیں۔
ٹیلی ویژن فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اہلکار گاڑیوں میں سوار ہوکر لوگوں کو علاقے سے نکلنے کی تلقین کر رہے ہیں۔
لاس اینجلس کاؤنٹی کے شیرف رابرٹ لونا نے بتایا کہ کاسٹیک میں واقع پچز حراستی مرکز کو انخلا کا حکم جاری کر دیا گیا ہے اور تقریباً 500 قیدیوں کو قریبی مرکز میں منتقل کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے مقامی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ علاقے کی دیگر جیلوں میں رکھے گئے تقریباً 4 ہزار 600 قیدی اپنی جگہ پناہ لیے ہوئے ہیں، لیکن حالات تبدیل ہونے کی صورت میں بسیں موجود ہیں اور انہیں منتقل کرنے کی ضرورت ہوگی۔
امریکن سول لبرٹیز یونین کی وکیل میلیسا کاماچو نے انسانی حقوق کے گروپ کی جانب سے ’خاص طور پر خطرناک فائر زونز میں جیل کے نظام کی توسیع‘ کی مخالفت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں ان جیلوں میں قید افراد کی حفاظت پر گہری تشویش ہے۔
کیلی فورنیا ہائی وے پٹرول کا کہنا ہے کہ آگ کی وجہ سے آئی فائیو فری وے پر ٹریفک متاثر ہے اور سڑک کا ایک حصہ جو امریکا کی مغربی ساحلی پٹی پر ہے، بند کر دیا گیا ہے۔
ہیلی کاپٹر اور طیارے موقع پر موجود ہیں اور آگ پر پانی گرا رہے ہیں۔ آگ بجھانے والے اس بیڑے میں 2 سپر اسکوپرز، بہت بڑے ایمفیبیئس طیارے شامل تھے جو سیکڑوں گیلن پانی لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
لاس اینجلس کاؤنٹی فائر ڈپارٹمنٹ اور اینجلس قومی جنگلات کے عملے نے بھی زمین سے آگ بجھانے کے لیے کام شروع کر دیا۔
کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم (جو لاس اینجلس میں آتشزدگی سے نمٹنے کے طریقہ کار پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تنقید کا نشانہ بنے ہیں) نے کہا ہے کہ انہوں نے حکام کو فوری کارروائی کا حکم دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی ردعمل میں مدد کے لیے اینجلس نیشنل فاریسٹ میں ’ہیوز فائر‘ پر ریاستی وسائل لگائے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم صورتحال پر گہری نظر رکھیں گے اور وفاقی حکومت کو اس آگ کو بجھانے کے لیے جو کچھ بھی درکار ہے فراہم کریں گے۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آگ کس وجہ سے لگی، لیکن یہ آگ ریڈ فلیگ فائر کے دوران لگی، جب ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ تیز ہواؤں اور کم نمی کی وجہ سے آگ تیزی سے پھیلنے کے لیے سازگار حالات پیدا ہوتے ہیں۔
انسانی سرگرمیاں، بشمول فوسل فیول کو بلا روک ٹوک جلانا، زمین کی آب و ہوا کو تبدیل کر رہا ہے، اوسط عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کر رہا ہے اور موسم کے پیٹرن کو تبدیل کر رہا ہے۔
اگرچہ جنوری اس خطے میں برسات کے موسم کا وسط ہے، لیکن جنوبی کیلیفورنیا میں تقریباً 8 مہینوں میں کوئی قابل ذکر بارش نہیں ہوئی، جس کی وجہ سے دیہی علاقے خشک ہوگئے ہیں۔