ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے امریکا سے کوئی رابطہ نہیں ہوا، ایران
سینئر ایرانی سفارت کار نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کے بعد سے ایران اور امریکا کے درمیان کسی بھی قسم کے پیغامات کا تبادلہ نہیں ہوا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ایران کے نائب وزیر خارجہ ماجد تخت روانچی نے مقامی خبر رساں ایجنسی ایسنا کو بتایا کہ نئی امریکی انتظامیہ کو اقتدار سنبھالے چند ہی دن ہوئے ہیں اور اب تک پیغامات کا تبادلہ نہیں ہوا ہے۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارت کے دوران ’ڈونلڈ ٹرمپ زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی پالیسی پر عمل کیا، اور امریکا کو تاریخی جوہری معاہدے سے نکال دیا، جس کے تحت پابندیوں میں ریلیف کے بدلے ایران کے جوہری پروگرام پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔
واشنگٹن کے دستبرداری تک تہران اس معاہدے پر قائم رہا، جسے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کے نام سے جانا جاتا ہے، بعد ازاں ایران اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹا شروع ہوا جبکہ 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئی تھیں۔
ماجد تخت روانچی کا کہنا تھا کہ ہمیں پرسکون رہتے اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے منصوبہ بندی کرنی ہوگی، جب دوسری طرف (ڈونلڈ ٹرمپ) کی پالیسیوں کا اعلان کیا جاتا ہے، ہم اس کے حوالے سے ردعمل دیں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند روز قبل کہا تھا کہ وہ ایران کی جوہری تنصیبات پر فوجی حملوں سے گریز کریں گے اور ایک معاہدے کی امید رکھتے ہیں۔
ایران نے بارہا اس معاہدے کو بحال کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے اور جولائی میں اقتدار سنبھالنے والے صدر مسعود پزشکیان نے اپنے ملک کی تنہائی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی سے قبل ایرانی عہدیداروں نے برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ہم منصبوں کے ساتھ جوہری مذاکرات کیے تھے۔
دونوں فریقوں نے بات چیت کو تعمیری قرار دیا تھا۔