حکومت کا صنعت و زراعت کے شعبوں میں سکڑاؤ کا اعتراف
حکومت نے پیر کو تسلیم کیا ہے کہ 3 اہم حقیقی اقتصادی شعبوں میں سے 2 زراعت و صنعت میں سکڑاؤ ہدف کے مقابلے میں سست معاشی نمو کا اشارہ ہے، لیکن کہا کہ آئی ایم ایف کی حمایت یافتہ پالیسی اصلاحات، مالیاتی نرمی اور مالی استحکام کی وجہ سے پاکستان رواں سال میں ترقی کی رفتار کو جاری رکھنے کے لیے اچھی پوزیشن میں ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ نے اپنی ششماہی ’اسٹیٹ آف اکانومی رپورٹ‘ میں گزشتہ مالی سال میں فصلوں کے شعبے میں ہائی بیس ریٹ اور بڑی فصلوں کی پیداوار میں کمی کو زراعت میں سست نمو کی وجہ قرار دیا ہے۔
وزارت خزانہ نے کہا کہ اہم فصلوں کی شرح نمو میں سال کی پہلی سہ ماہی میں 11.19 فیصد کمی واقع ہوئی جس کی وجہ گزشتہ مالی سال کے فصلوں کے شعبے میں ہائی بیس ریٹ اور کپاس کی پیداوار میں 29.6 فیصد، چاول کی پیداوار میں 1.2 فیصد، گنے کی پیداوار میں 2.2 فیصد اور مکئی کی پیداوار میں 15.6 فیصد کمی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ اہم فصلوں میں گندم، کپاس، چاول، مکئی اور گنے شامل ہیں، تاہم پہلی سہ ماہی میں گندم پر کوئی اثر نہیں پڑا کیونکہ اس سہ ماہی کے دوران نہ تو اس کی بوائی کی گئی اور نہ ہی کٹائی کی گئی۔
ششماہی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صنعتی شعبے کی شرح نمو منفی رہی تاہم سکڑنے کی شرح گزشتہ سال کے 4.43 فیصد سے کم ہو کر 1.03 فیصد رہ گئی جو بتدریج بہتری کا اشارہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2023 میں 0.2 فیصد سکڑاؤ کے مقابلے مالی سال 2024 میں جی ڈی پی کی 2.5 فیصد شرح نمو کے نتیجے میں معاشی بحالی ممکن ہوئی اور مالی سال 2025 کی پہلی سہ ماہی میں 0.92 فیصد کی مثبت نمو برقرار رہی ہے۔
تاہم گزشتہ سال کے 2.3 فیصد کے مقابلے میں شرح نمو سست روی کا شکار ہے جو اہم شعبوں بالخصوص زراعت میں اعتدال کی عکاسی کرتی ہے۔
شرح سود میں کمی
مالی سال 2023 کے دوران عروج پر رہنے والا افراط زر کا دباؤ مالی سال 2024 میں نمایاں طور پر کم ہوا جس کی وجہ مؤثر پالیسی مداخلت، عالمی اجناس کی قیمتوں میں کمی اور شرح تبادلہ میں استحکام ہے، اس سے مالیاتی نرمی کی گنجائش پیدا ہوئی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی پالیسی ریٹ میں 1000 بیسس پوائنٹس کی کمی سے معاشی سرگرمیوں کو تقویت ملی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈسٹریل اور کنزیومر سیکٹر کے لیے زیادہ سازگار ماحول کے ساتھ ساتھ مالیاتی موقف میں نرمی معاشی رفتار کو تقویت دے رہی ہے۔
بیرونی شعبے میں ترسیلات زر کی آمد میں نمایاں بہتری اور برآمدات میں لچکدار کارکردگی دیکھنے میں آئی جس سے کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس میں خاطر خواہ بہتری آئی، ایف ڈی آئی نے خاص طور پر توانائی اور مالیاتی کاروبار میں تقریباً 20 فیصد اضافہ ظاہر کیا، دریں اثنا ڈالر کے مقابلے میں روپے نے استحکام کا مظاہرہ کیا جس سے زرمبادلہ کے مستحکم ذخائر اور مضبوط مالیاتی انتظام میں مدد ملی۔
مالی محاذ پر محصولات جمع کرنے کی کوششوں میں اضافے کے نتیجے میں ٹیکس اور نان ٹیکس محصولات دونوں میں نمایاں اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں مالی خسارہ نمایاں طور پر کم ہوا۔
تقریباً 5 ماہ طویل خشک سالی جیسے حالات کا ذکر کیے بغیر وزارت خزانہ نے دعویٰ کیا کہ مشینری، سرمایہ کاری اور پانی کی دستیابی سمیت ہائی فریکوئنسی انڈیکیٹرز اس شعبے میں مستقبل کی ترقی کے لیے مثبت نقطہ نظر کی نشاندہی کرتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقامی سرگرمیوں کی بحالی اور تجارت میں اضافے کی وجہ سے خدمات کے شعبے کے مثبت سفر کو جاری رکھنے کی توقع ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2025 کے دوران جولائی تا دسمبر ترسیلات زر کی ریکارڈ بلند آمد اور برآمدات کی مضبوط کارکردگی کی وجہ سے 1.21 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس رہا جس سے بڑھتے ہوئے درآمدی بل کو پورا کیا جا سکا، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر آئی ایم ایف کی تقسیم اور بین الاقوامی مالی امداد کی بدولت 2 ماہ سے زائد کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت مالی سال 2025 میں جولائی سے نومبر کے دوران مالیاتی خسارے کو جی ڈی پی کے 0.04 فیصد تک لانے میں کامیاب رہی ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں خسارے میں نمایاں بہتری کو ظاہر کرتا ہے۔
ٹیکس اور نان ٹیکس ریونیو (خاص طور پر ریکارڈ 22 فیصد پالیسی ریٹ کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کے تاریخی منافع) میں زبردست اضافے سے اس بہتری کو تقویت ملی، جو بہتر مالی نظم و ضبط، شرح سود میں کمی اور مستحکم شرح تبادلہ کی عکاسی کرتی ہے۔
مضبوط معاشی بنیادوں، افراط زر میں کمی اور سرمایہ کاروں کے بڑھتے ہوئے اعتماد کے ساتھ پاکستان مالی سال 2025 کے دوران مسلسل ترقی کی رفتار کے لیے پوری طرح سے تیار ہے، مالیاتی نرمی اور برآمدات میں سہولت سمیت اہم پالیسی اقدامات نجی شعبے کی ترقی کے لیے سازگار ماحول پیدا کر رہے ہیں۔
مسلسل مالیاتی نظم و ضبط اور بہتر بیرونی کھاتوں کے ساتھ ساتھ سازگار عالمی رجحانات سے اس مثبت رفتار کو برقرار رکھنے کی توقع ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پائیدار ترقی کے لیے پرعزم حکومت ڈھانچہ جاتی مسائل پر قابو پانے اور جامع ترقی کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔