• KHI: Maghrib 6:15pm Isha 7:34pm
  • LHR: Maghrib 5:35pm Isha 6:58pm
  • ISB: Maghrib 5:36pm Isha 7:02pm
  • KHI: Maghrib 6:15pm Isha 7:34pm
  • LHR: Maghrib 5:35pm Isha 6:58pm
  • ISB: Maghrib 5:36pm Isha 7:02pm

سینیٹ کمیٹی نے 2018 سے تاحال سولر پینلز کی درآمدات کے آڈٹ کا حکم دے دیا

شائع January 28, 2025
— فائل فوٹو: ڈان
— فائل فوٹو: ڈان

سینیٹ کی ذیلی کمیٹی نے کمرشل بینکوں کے ذریعے دو امپورٹرز کی جانب سے 70 ارب روپے کی انڈر اور اوور انوائسنگ کی تحقیقات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے 2018 سے اب تک تمام سولر پینلز کی درآمدات کا مکمل آڈٹ کرنے کا حکم دے دیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ذیلی کمیٹی کے اجلاس کے بعد سینیٹر محسن عزیز کی سربراہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و ریونیو نے اعلان کیا کہ سولر پینلز کی درآمدات میں بڑے پیمانے پر اربوں روپے کی اوور انوائسنگ یا کرپشن کا انکشاف ہوا ہے۔

لہٰذا ذیلی کمیٹی نے اس معاملے میں ملوث دونوں کمپنیوں اور دو بینکوں کے خلاف، جن پر پہلے ہی اسٹیٹ بینک کی جانب سے ’غفلت‘ برتنے کے سبب جرمانہ عائد کیا جا چکا ہے، مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

سینیٹر محسن عزیز نے سوال کیا کہ ’ہم اب جرمانوں اور سزاؤں کے حوالے سے سن رہے ہیں، لیکن اسکینڈل میں ملوث حقیقی مجرمان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟‘

اجلاس میں مالی بےضابطگیوں میں ملوث ’برائٹ اسٹار بزنس‘ اور ’مون لائٹ ٹریڈرز‘ نامی دو بڑی کمپنیوں کے خلاف تحقیقات کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کے دوران انکشاف ہوا کہ معاملے میں مرکزی طور پر ملوث دونوں کمنیوں کی جانب سے لین دین میں انتہائی سنجیدہ نوعیت کی بے ضابطگیاں کی گئی ہیں۔

دونوں کمپنیوں پر 2018 سے 2022 کے درمیان 106 ارب روپے کی مشکوک ٹرانزیکشنز کرنے کا الزام ہے، جن کا بڑا حصہ نقد رقم پر مشتمل ہے۔ محسن عزیز نے سخت معاشی حالات، درآمدی پابندیوں کے باوجود آزادانہ طور پر مشکوک ٹرانزیکشنز پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’یہ کیسے ممکن ہے کہ کمپنیاں بڑی سنگل ٹرانزیکشن کرنے میں کامیاب رہیں جب کم رقم کی ٹرانزیکشنز پر بھی سوالات اٹھائے جارہے تھے؟‘

اجلاس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ مذکورہ کمپنیوں نے لاہور میں دبئی اسلامک بینک اور عسکری بینک کی برانچز میں کھولے گئے اکاؤنٹس کو سولر پینلز کی درآمد میں ٹرانزیکشنز کے لیے استعمال کیا۔ سینیٹ کمیٹی نے حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’صرف برائٹ اسٹار نے 2018 میں 2 ارب 70 کروڑ روپے سے زائد کی ٹرانزیکشنز کیں اور ادائیگیاں جاری رکھتے ہوئے 2019 میں 5 ارب روپے، 2020 میں ایک ارب 50 کروڑ روپے اور 2022 میں 2 ارب 50 کروڑ روپے کی ٹرانزیکشنز کیں۔‘ اسی طرح مون لائٹ نے 7 ارب 90 کروڑ روپے کا کاروبار ظاہر کیا جس میں بڑا حصہ نقد رقم پر مشتمل تھا۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ پینل نے ایسی متعدد مثالوں کا بھی انکشاف کیا جہاں شمسی درآمدات کو مارکیٹ سے انتہائی زائد قیمت پر کلیئر کیا گیا، اعلامیہ میں میں مزید کہا گیا کہ ’کچھ سولر کنٹینرز کو مارکیٹ کی قیمتوں سے کم قیمت پر، جب کہ دیگر کو زائد قیمت پر کلیئر کیا گیا۔‘ کمیٹی کے رکن سینیٹر شاہ زیب درانی نے کہا کہ ’ایف بی آر کو اس تضاد کے بارے میں بہت پہلے الرٹ ہوجانا چاہیے تھا۔‘

فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) اور ایف بی آر نے ان ٹرانزیکشنز کی نوعیت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا۔ ایف بی آر حکام نے تصدیق کی کہ تقریباً 46 ارب روپے کی مشکوک ٹرانزیکشنز کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں سے زیادہ تر نقد ادائیگیوں سے متعلق ہیں، جس سے ممکنہ منی لانڈرنگ کے سنگین خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

پینل کا کہنا تھا کہ ’اسٹیٹ بینک کے حکام نے انکشاف کیا ہے کہ عسکری بینک اور دبئی اسلامک بینک پر غفلت برتنے پر جرمانے عائد کیے گئے ہیں، عسکری بینک پر 4 کروڑ روپے، جب کہ دبئی اسلامک بینک پر 2 کروڑ 70 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔‘

رپورٹ میں آگاہ کیا گیا کہ ’تاحال اس اسکینڈل میں تین افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، تاہم وہ ضمانت پر ہیں۔‘ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’فی الوقت سولر پینل کی در آمد میں مالی لین دین کی اوور انوائسنگ سمیت کئی سوالات کے جوابات نہیں مل سکے ہیں۔‘

لہٰذا کمیٹی نے مشترکہ طور پر 2018 سے 2022 تک شمسی توانائی کی درآمدات میں شامل تمام کمپنیوں کا مکمل آڈٹ کرنے، سولر پینل کی درآمدات سے متعلق مالی لین دین کی نگرانی میں اضافہ کرنے اور مالی لین دین میں ریگولیشن اور اس میں کمرشل بینکوں کی غفلت پر فوری تحقیقات کی سفارش کی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 30 جنوری 2025
کارٹون : 29 جنوری 2025