پی ٹی آئی مطالبات: حکومت کی عدالتی کمیشن کے بجائے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تجویز
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات میں رکاوٹ پیدا ہونے کے بعد حکومت نے 9 مئی اور 26 نومبر کے پرتشدد مظاہروں کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے، اس کے بجائے ان واقعات کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل سمیت متبادل آپشنز تجویز کیے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم نے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کو اپنا جواب جمع نہیں کرایا، تاہم اس معاملے سے باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ حکومت نے قانونی ماہرین اور سینئر وکلا سے مشاورت کی ہے، جنہوں نے مشورہ دیا ہے کہ ان مقدمات کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل نہیں دیے جا سکتے جن کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہے یا عدالتوں میں چلایا جا رہا ہے۔
حکومت کے اس موقف کا اندازہ لگاتے ہوئے کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل ممکن نہیں ہے، پی ٹی آئی نے 28 جنوری کو ہونے والے مذاکرات کے چوتھے دور سے پہلے ہی تشہیری مذاکراتی عمل کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔
پی ٹی آئی نے چوتھے اجلاس میں شرکت کو 9 مئی 2023 اور 26 نومبر 2024 کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے مشروط کیا تھا، تاہم حکومت نے 31 جنوری تک مذاکراتی کمیٹی تحلیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا اوراپوزیشن جماعت کی ’واپسی‘ کا انتظار کرے گی۔
رابطہ کرنے پر حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ حکومت کا جواب سامنے نہیں لا سکتے، یہ تفصیلی غور و خوض اور سخت محنت کے بعد تیار کیا گیا ہے۔
درحقیقت پی ٹی آئی کے دو نہیں بلکہ 15 مطالبات ہیں، کیونکہ دونوں مطالبات (جوڈیشل کمیشن اور پی ٹی آئی قیدیوں کی رہائی) میں ان کے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) کی شکل میں مزید 7 سے 8 مطالبات ہیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا حکومت نے عدالتی کمیشن نہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے، عرفان صدیقی نے کہا کہ متبادل آپشنز تجویز کیے گئے تھے جن میں 9 مئی اور 26 نومبر کے مظاہروں کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے جوابات کے ذریعے ہم پرامید تھے کہ پی ٹی آئی کے تقریباً تمام مطالبات کے مسائل حل کرلیں گے، لیکن بدقسمتی سے اپوزیشن پارٹی نے مذاکرات کا عمل چھوڑ دیا۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے سول نافرمانی اور جارحانہ ٹوئٹس بشمول مسلح افواج پر حملوں اور وزیر اعظم کو ذاتی طور پر گالیاں دینے کے باوجود حکومت نے اس عمل کو بہت صبر و تحمل کے ساتھ آگے بڑھایا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اسے برداشت کیا، اب پی ٹی آئی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس عمل کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے اسپیکر سے رابطہ کرے۔
دریں اثنا پی ٹی آئی کے عبوری چیئرمین بیرسٹر گوہر نے مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی وجہ سے مذاکرات ختم ہوئے۔
پی ٹی آئی کے رہنما اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے کہا کہ اگر حکومت نے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیے ہوتے تو حقائق سامنے آسکتے تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ جوڈیشل کمیشن حقائق کو بے نقاب کرسکتا ہے جس کے بعد حکومت ایک دن بھی کام نہیں کرسکتی۔