خطرناک بیماری ’سیپسس‘ کی تشخیص میں پیش رفت
طبی ماہرین طویل تحقیق کے بعد خطرناک متعدد مرض ’سیپسس‘ کی جلد تشخیص کرنے کے ممکنہ طریقہ کار کی نشاندہی کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
طبی جریدے میں شائع رپورٹ کے مطابق ماہرین نے کئی سال تحقیق کے بعد کہا ہے کہ ’سسٹمز امیونالاجی‘ (Systems immunology) کی کمپیوٹیشنل اور طبی تشخیصی طریقہ کار کے تحت ’سیپسس‘ کو جلد سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ماہرین نے کہا کہ چوں کہ ’سسٹمز امیونالاجی‘ کی تشخیص کا طریقہ مہنگا اور پیچیدہ ہے، اس لیے اسے آسان کرنے اور سمجھنے کے لیے کئی سال کی تحقیق اور لاکھوں ڈالرز کی فنڈنگ درکار ہے۔
ماہرین نے اپنے تحقیقی مقالے میں اس امید کا اظہار کیا کہ ’سسٹمز امیونالاجی‘ کے طریقے کو آسان کرنے سے ’سیپسس‘ کی جلد تشخیص میں مدد ملے گی اور اس سے اموات میں کمی واقع ہوگی۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ ’سیسپس‘ ایک ایسی بیماری حالت ہے جو کہ دوسری وبائی بیماریوں کے ہونے کے بعد شدید ہوجاتی ہے اور اس سے متاثر فرد کے زندہ بچنے کے امکانات مزید کم ہوجاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں ہونے والی 20 فیصد اموات ’سیپسس‘ کی وجہ سے ہوتی ہیں، مرنے والے بہت سارے افراد اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن ان کی بیماری کی تشخیص نہیں ہوپاتی۔
’سیپسس‘ ایک شدید وائرل بیماری ہے جو اس وقت ہوتی ہے جب کسی انفیکشن پر جسم کا ردعمل وسیع پیمانے پر سوزش کا سبب بنتا ہے، یہ بیماری متعدد اعضاء کی ناکامی کا باعث بن سکتی ہے۔
اس بیماری کے ذریعے انفیکشن خون میں شامل ہوجاتا ہے جو کہ دل میں جانے کے بعد جسم میں سوزش کا سبب بنتا ہے، جس سے اعضا ناکارہ ہونے لگتے ہیں اور بیک وقت متعدد اعضا بھی ناکارہ ہو سکتے ہیں۔
اس بیماری کی علامات دوسری عام بیماریوں جیسی ہوتی ہیں، جس وجہ سے اس کی تشخیص کرنا مشکل ہوجاتی ہے اور عام ڈاکٹرز اس کی علامات کو دوسری بیماری کی علامات سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔
’سیپسس‘ کی تشخیص کا باقاعدہ طریقہ کار بھی موجود نہیں، اس کی تشخیص کے لیے متعدد بلڈ ٹیسٹس، ایکسریز، الٹراساؤنڈ اور سی ٹی اسکین تک کیے جا سکتے ہیں، تاہم بعض اوقات ان مراحل سے گزرنے کے باوجود بھی بیماری کی تشخیص نہیں ہوپاتی۔
’سیپسس‘ کو متعددی بیماری یا مرض کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، عام طور ماہرین اسے تین کیٹیگریز میں تقسیم کرتے ہیں، اس کی تیسری کیٹیگری خطرناک سمجھی جاتی ہے، یعنی وہ بیماری کی لاسٹ اسٹیج ہوتی ہے۔