• KHI: Zuhr 12:46pm Asr 4:42pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 4:01pm
  • ISB: Zuhr 12:22pm Asr 4:02pm
  • KHI: Zuhr 12:46pm Asr 4:42pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 4:01pm
  • ISB: Zuhr 12:22pm Asr 4:02pm

وفاقی حکومت نے ارکان پارلیمنٹ کی متنازع سیاسی ترقیاتی اسکیمیں بحال کر دیں

شائع February 3, 2025
حکومت نے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے نافذ کردہ اصولوں میں بھی نرمی کی ہے — فائل فوٹو: ڈان
حکومت نے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے نافذ کردہ اصولوں میں بھی نرمی کی ہے — فائل فوٹو: ڈان

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے پہلے سال کی تکمیل کے موقع پر رواں مالی سال کے ابتدائی 7 ماہ میں 460 ارب روپے سے زائد کے ریونیو شارٹ فال کے باوجود پارلیمنٹیرینز کی متنازع ترقیاتی اسکیموں کو بحال کر دیا ہے، یہ اسکیمیں پہلی ششماہی میں شروع نہیں ہوسکی تھیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک بڑے اقدام کے طور پر حکومت نے ’پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے پروگرام‘ (ایس اے پی) کے کوڈ نام سے ان سیاسی اسکیموں کا حجم 25-2024 کے بجٹ میں مختص 25 ارب روپے سے بڑھا کر دو گنا کرتے ہوئے تقریباً 50 ارب روپے کر دیا ہے۔

کمیٹی نے اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے اس مطالبے کو بھی مسترد کر دیا کہ وہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 30 ارب روپے کے غیر استعمال شدہ فنڈز کو آگے بڑھائے۔

حکومت نے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے پہلے سے نافذ کردہ اصولوں میں بھی نرمی کی ہے، تاکہ حکومت سے وابستہ اراکین پارلیمنٹ کو مطمئن کرنے کے لیے فنڈز کی فوری تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے، یہ گزشتہ ہفتے اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں تقریباً 300 فیصد اضافے کے علاوہ ہے۔

حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ چونکہ اس طرح کی زیادہ تر اسکیموں پر عمل درآمد کرنے والے پاکستان پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) کو ختم کر دیا گیا ہے، لہٰذا یہ کام وزارت ہاؤسنگ کی پاکستان انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (پی آئی ڈی سی ایل) کو دیا جائے۔

حال ہی میں ڈپٹی وزیراعظم اسحٰق ڈار کی سربراہی میں اسٹیئرنگ کمیٹی برائے ایس اے پی کے اجلاس میں بتایا گیا کہ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی غلام مصطفیٰ شاہ نے مالی سال 24-2023 کے دوران ختم ہونے والے فنڈز کی دوبارہ توثیق کے لیے خطوط لکھے تھے۔

یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی اس وقت کی حکومت نے مالی سال 24-2023 کے بجٹ میں پارلیمنٹیرینز اسکیم کے لیے 91 ارب روپے مختص کیے تھے، اور نگران حکومت کی جانب سے ان کی جگہ لینے سے قبل تقریباً 61 ارب روپے تقسیم کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔

اس کے نتیجے میں مالی سال کے اختتام تک تقریباً 57 ارب روپے استعمال کیے جا سکے تھے، پیپلز پارٹی کے 2 آئینی عہدیدار چاہتے تھے کہ باقی 34 ارب روپے اس سال استعمال کیے جائیں، تاہم اسحٰق ڈار نے وضاحت کی کہ پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019 گزشتہ سالوں کے ضائع شدہ فنڈز کی اس طرح کی دوبارہ توثیق کی اجازت نہیں دیتا، لہٰذا کمیٹی ان تجاویز پر اتفاق کرنے پر مجبور محسوس کرتی ہے۔

پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کا پروگرام

وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے اجلاس کو بتایا کہ حکومت نے پی ایس ڈی پی کے تحت مالی سال 25-2024 کے لیے ایس اے پی کے لیے 50 ارب روپے مختص کیے ہیں۔

تاہم وزارت کی آفیشل ویب سائٹ پر دستیاب پی ایس ڈی پی میں متعلقہ اسکیموں کی منظوری کے بغیر ایس اے پی کے لیے 25 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

وزیر منصوبہ بندی کے بیان کی بنیاد پراسٹیئرنگ کمیٹی کے تمام ارکان نے اتفاق کیا کہ ایس اے پی فنڈز متعلقہ وفاقی وزارتوں/ڈویژنز اور صوبائی حکومتوں کو جاری کیے جاسکتے ہیں۔

کمیٹی نے وزارت منصوبہ بندی سے منظوری کے بعد ایس اے پی اسکیموں پر عملدرآمد کے لیے 48.37 ارب روپے جاری کرنے اور فنانس ڈویژن سے سہ ماہی ریلیز حکمت عملی میں نرمی کی منظوری دی۔

کمیٹی 27 ارکان پر مشتمل تھی جس میں 16 ارکان پارلیمنٹ، 7 وفاقی سیکریٹریز اور 4 صوبائی نمائندے شامل تھے۔

اراکین پارلیمنٹ میں راجا پرویز اشرف، شازیہ مری، سردار یوسف زمان، ریاض الحق، جاوید حنیف خان، خالد مگسی، اعجاز الحق اور طارق فضل چوہدری شامل ہیں۔

48 ارب 37 کروڑ روپے میں سے 28 ارب 87 کروڑ روپے پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ نے منظور کیے، اس کے بعد سندھ کے لیے 15 ارب 25 کروڑ روپے، بلوچستان کے لیے 2 ارب 25 کروڑ روپے، خیبر پختونخوا کے لیے ایک ارب 25 کروڑ روپے اور اسلام آباد کے لیے 75 کروڑ روپے کی منظوری دی گئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ منصوبہ بندی کمیشن کی جانب سے تقریباً 40 ارب روپے تقسیم کرنے کی منظوری دی جاچکی ہے۔

واضح رہے کہ حکومت نے اب تک بنیادی ترقیاتی پروگرام پر کڑی نظر رکھی ہے، جس کے تحت مالی سال کی پہلی ششماہی میں صرف 148 ارب روپے استعمال کیے جاسکے ہیں، جو کہ ایک ہزار 100 ارب روپے کے مختص کردہ بجٹ کا 10.45 فیصد ہیں۔

یہ استعمال مطلق اور فیصد دونوں لحاظ سے پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں اور بھی کم ہے جب نگران حکومت قائم تھی، گزشتہ سال 6 ماہ کے لیے 150 ارب روپے استعمال کیے گئے تھے جو سالانہ مختص 940 ارب روپے کا 16 فیصد بنتا ہے۔

نسبتاً زیادہ اخراجات کے باوجود پی ایس ڈی پی کے اخراجات سال کے آخر تک 635 ارب روپے سے آگے نہیں بڑھ سکے اور بجٹ مختص کردہ رقم کا تقریباً ایک تہائی خسارے کی فنانسنگ کے لیے استعمال کیا گیا، اگر یہ اشارہ ہے تو اس سال ترقیاتی پروگرام کے 600 ارب روپے سے تجاوز کرنے کا امکان نہیں ہے۔

وزارت خزانہ کی جانب سے رواں مالی سال کے لیے اعلان کردہ میکانزم کے تحت حکومت کو پہلی سہ ماہی میں مختص بجٹ کا 15 فیصد، دوسری سہ ماہی میں 20 فیصد، تیسری سہ ماہی میں 25 فیصد اور مالی سال کی آخری سہ ماہی میں بقیہ 40 فیصد جاری کرنا ہوگا۔

اس طرح دسمبر کے آخر تک پی ایس ڈی پی کا تخمینہ سالانہ مختص کا کم از کم 35 فیصد یا 385 ارب روپے سے کم نہیں ہونا چاہیے، جو 6 ماہ میں اصل اخراجات سے تقریباً 3 گنا زیادہ ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 فروری 2025
کارٹون : 3 فروری 2025