• KHI: Maghrib 6:18pm Isha 7:36pm
  • LHR: Maghrib 5:38pm Isha 7:01pm
  • ISB: Maghrib 5:40pm Isha 7:05pm
  • KHI: Maghrib 6:18pm Isha 7:36pm
  • LHR: Maghrib 5:38pm Isha 7:01pm
  • ISB: Maghrib 5:40pm Isha 7:05pm

اپنے آشیانوں کو مسمار ہوتے دیکھنا کیسا ہے؟

شائع 03 فروری 2025 03:32pm

میں چاہتی ہوں کہ آپ ایک ایسی دستاویزی فلم ضرور دیکھیں جسے دیکھ کر آپ طیش میں آجائیں گے، یہ آپ کے دل کو چیر کر رکھ دے گی، آپ رونے پر مجبور ہوجائیں گے ، آپ کی راتوں کی نیندیں اُڑ جائیں گی۔ میں نے جب یہ فلم دیکھی تو میرے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔

سوشل میڈیا پر آنے والی تصاویر، چند سیکنڈز کے کلپس وہ کرب سمجھانے کے لیے ناکافی ہیں جس سے فلسطینی ہر روز گزرتے ہیں کیونکہ مسلسل سوشل میڈیا پر مواد دیکھنے کی وجہ سے ہماری حساسیت کم چکی ہے لہٰذا فلسطینیوں کی حقیقی جدوجہد سمجھنے کے لیے آپ کو یہ دستاویزی فلم ضرور دیکھنی چاہیے۔

’No Other Lands‘ دیکھ کر آپ یہ سمجھ پائیں گے کہ جب اسرائیلی سپاہی اور آبادکار آپ کو اپنے گھروں سے بے دخل کرنے آتے ہیں تو اس خوف میں جینا کیسا ہے۔ اور پھر یہ دیکھنا کیسا ہے کہ چیخ و پکار، آہ و بکا کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ کیسے آنکھوں کے سامنے آپ کے گھر کو مسمار کردیتے ہیں۔ پھر آپ کسی غار میں پناہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور حتیٰ الامکان اپنی زندگی معمول پر لانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ دوسرا آپشن سب کچھ چھوڑ کر یہاں سے چلے جانا ہے۔

’نو آدر لینڈ‘ مسافر یطہ میں ان فلسطینی دیہاتیوں کی اسرائیلی جبر کے خلاف مزاحمت کی کہانی سناتی ہے جنہیں زبردستی ان کی زمینوں سے بےدخل کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ دستاویزی فلم فلسطین اور اسرائیل کے فلم سازوں کے مشترکہ تعاون سے بنائی گئی ہے جبکہ اسے حماس کے اسرائیل پر حملے سے قبل، 5 سال کے عرصے میں بنایا گیا۔

اس فلم میں فلسطینی کارکن اور فلم ساز باسل عدرا اور اسرائیلی صحافی یوول ابراہم پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جو قبضے کے مخالف ہیں۔ مزاحمت کرنے والے باشندوں کے خلاف اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں کی طرح، ان دونوں کے تعلق کو بھی دستاویزی فلم میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔

وہ مناظر آپ بھول نہیں پائیں گے کہ کیسے ایک باپ نے اپنے گھر کو ملبے کا ڈھیر بنتے دیکھنے والی اپنی نوجوان بیٹیوں کو تسلی دینے کی کوشش کی۔ یا ایک ماں جو چیخ چیخ کر فوجیوں سے التجا کرتی ہے کہ وہ کم از کم بیت الخلا مسمار نہیں کریں۔ چند لمحات بعد اسرائیلی فوجیوں نے ایک نوجوان شخص ہارون پر گولیاں چلا دیں اور اس نوجوان کا جسم کاندھے سے نیچے مفلوج ہوگیا۔ اس کی ماں کو اپنے بیٹے کے گولیوں سے چھلنی جسم پر بین کرتے دیکھنا دل دہلا دیتا ہے۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ کس طرح ہارون اپنے خاندان کے ساتھ غار میں پناہ لینے پر مجبور ہوتے ہیں، کسی کمبل کو اسٹریچر کی طرح بروئے کار لاتے ہوئے اس کے خاندان کے افراد نے ہارون کو ہسپتال کے بستر کے بجائے زمین پر رکھے گدے پر منتقل کیا۔ ہارون غار سے طبی علاج کے لیے بھی باہر نہیں جاسکتا۔

ایک اور منظر میں ہارون کی ماں اس کے ساتھ بیٹھی ہیں کہ جب انہیں شاید کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے جس پر انہیں خوف ہوتا ہے کہ کہیں اسرائیلی چھاپہ مارنے تو نہیں آگئے۔ پریشان ہارون پوچھتا ہے، ’کون آرہا ہے؟‘ اس کی ماں نے جواب دیا، ’کوئی نہیں آرہا‘۔

2019ء میں مغربی کنارے پر مقبوضہ علاقوں پر مسافر یطہ سے تقریباً 2 ہزار 500 فلسطینیوں کو بےدخل کیا گیا۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ ان دیہاتیوں نے ملٹری تربیتی زمین پر غیرقانونی تعمیرات کی تھیں۔ فلسطینیوں نے اس دعوے کو مسترد کیا۔ فلسطینی کیا کہتے ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس دستاویزی فلم میں اسرائیلی سپاہیوں کو گھروں، اسکولز حتیٰ کہ مرغیوں کے دڑبوں کو مسمار کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔

ابراہم نے ’ڈیموکریسی ناؤ‘ کو بتایا کہ ’اگر فلسطینیوں کے پاس آزادی نہیں ہوگی تو مجھے نہیں لگتا کہ وہ محفوظ ہو پائیں گے‘۔ ابراہم کو فلسطینیوں کی نمائندگی کرنے پر نفرت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک فلسطینی شخص جس کا گھر زمین بوس ہوچکا تھا، نے ابراہم کو بتایا کہ شاید انہیں یہاں قبول نہیں کیا جائے گا۔

اس میں ایک جذباتی منظر بھی شامل ہے جس میں دو دوست رات گئے بات کر رہے ہیں۔ باسل عدرا جو مغربی کنارے سے باہر نہیں نکل سکتے، ابراہم جو آزادانہ نقلِ و حمل کرسکتے ہیں، کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ دونوں ایک ساتھ کہیں چلے جائیں۔ جب ابراہم نے پوچھا کہ وہ کہاں جائیں گے تو باسل عدرا نے مذاق میں کہا، ’مالدیپ‘۔ اسی وقت پس منظر میں ایک گدھے کی آواز بلند ہوئی جس پر ابراہم نے مزاحیہ انداز میں کہا، ’گدھا بھی آپ کے منصوبے پر ہنس رہا ہے‘۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان دونوں کا فرار ہونے کا منصوبہ اس صورت حال میں کتنا غیرحقیقی تھا۔

باسل عدرا کے والدین بھی فلسطینی آزادی کے سرگرم کارکنان تھے اور ان کے خاندانی گھر میں ویڈیوز موجود ہیں جن میں ان کے والد کی مزاحمت کی داستانیں محفوظ ہیں۔ گھر تباہ ہونے کے بعد وہ دوبارہ تعمیر کریں گے۔ وہ رات میں حکام کی نظروں میں آئے بغیر چھپ کر اسکول تعمیر کرتے ہیں۔

2009ء میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے بھی اسکول کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کی پرانی فوٹیجز میں ٹونی بلیئر باسل عدرا کے گھر کے پاس سے گزرتے ہیں جہاں ان کے والد کھڑے ہوتے ہیں۔ باسل عدرا نے بتایا کہ ٹونی بلیئر کا گزر جن سڑکوں سے ہوا وہاں گھروں اور اسکولز کو مسمار کرنے کا اسرائیل نے حکم نہیں دیا تھا۔ یہ لمحہ اقتدار میں رہنے والوں کے اثرات اور پیچھے لڑنے والوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو نمایاں کرتا ہے۔

ایک دن فوجی مرغیوں کے دڑبوں کو مسمار کرنے آئے۔ کم عمر بچے ملبے سے ایک کبوتر کو بچانے میں کامیاب ہوگئے اور کسی نے بلند آواز میں کہا، ’باسل۔۔ ادھر آؤ ویڈیو بناؤ، وہ لوگ آگئے ہیں‘۔ اور پھر کیمرا اس جانب بھاگتا ہے جہاں فوجی پہاڑوں پر چڑھ رہے ہوتے ہیں۔ باسل عدرا نے کہا، ’میں آپ کو فلم کررہا ہوں، تم ہمیں اپنے گھروں سے نکالنے والے مجرمان کی طرح ہو‘۔

سپاہیوں نے دھمکی دی کہ اگر وہ پیچھے نہیں ہٹے تو انہیں گرفتار کرلیا جائے گا۔ باسل عدرا نے پوچھا کہ وہ کس وجہ کی بنا پر انہیں گرفتار کریں گے اور پھر ہاتھا پائی شروع ہوگئی۔ کیمرا زمین پر گرا اور پھر ان کی چیخوں کی آواز آئی مگر وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ اگلے روز فوجی باسل عدرا کے والد کو گرفتار کرنے آگئے۔ یہ پوری صورت حال انتہائی پریشان کُن تھی۔

جیسا کہ باسل عدرا نے کہا، یہ ایک ایسی دنیا ہے جس کی بنیادیں ہی تقسیم پر مبنی ہیں۔ اسرائیلی گاڑیوں کے لیے پیلے رنگ کی لائسنس پلیٹ جنہیں ہر جگہ سفر کرنے کی اجازت ہے جبکہ فلسطینی گاڑیوں کے لیے سبز نمبر پلیٹ جنہیں مغربی کنارے سے باہر جانے کی اجازت نہیں۔ یہ دونوں علاقے اسرائیل کے زیرِ کنٹرول ہیں۔

ہر ہفتے فیملی کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ انہیں ان مصائب کا سامنا کرنا ہے یا اپنی زمین سے دستبرداری دینا ہوگی۔ اپنی زمین نہ چھوڑنا زیادہ مشکلات کا باعث بنتا ہے لیکن پھر بھی زیادہ تر فلسطینی اسی مشکل راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ ایک اہم فلم ہے، امید کرتے ہیں کہ آسکر نامزدگی حاصل کرنے والی یہ دستاویزی فلم جیت جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ دیکھ کر سمجھ سکیں کہ زمین سے بےدخل ہونے والے فلسطینی کن حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

مونا خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 3 فروری 2025
کارٹون : 2 فروری 2025