والد کے قتل کے بعد میڈیا کے نامناسب سوالات کے باعث شہر چھوڑا، بیٹا امجد صابری
مقتول قوال امجد صابری کے صاحبزادے ابھرتے ہوئے قوال مجدد صابری نے انکشاف کیا ہے کہ والد کے قتل کے بعد میڈیا کے نامناسب سوالات کی وجہ سے ان کے خاندان نے کچھ عرصے کے لیے شہر چھوڑ دیا تھا۔
امجد صابری کو 22 جون 2016 کو کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔
مقتول قوال کے صاحبزادے مجدد صابری حال ہی میں مزاحیہ پروگرام ’ہنسنا منع ہے‘ میں شریک ہوئے، جہاں انہوں نے مختلف معاملات پر کھل کر بات کی۔
انہوں نے بتایا کہ وہ بہن اور بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں اور والد کی جگہ انہوں نے لی ہے، ان کی بہن کی شادی جب کہ چھوٹے بھائی کی منگنی ہوچکی۔
مجدد صابری کا کہنا تھا کہ ان کا فی الحال شادی کا ارادہ نہیں، تاہم آئندہ تین سال میں وہ رشتہ ازدواج میں بندھ جائیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ان کے دادا غلام فرید صابری اور ان کے بھائی کو ہی ’صابری برادرز‘ کہا جاتا ہے اور انہوں نے ’صابری برادرز‘ کو حکومت پاکستان کے قوانین کے تحت رجسٹرڈ کروا رکھا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد اپنے 11 بہن اور بھائیوں میں آٹھویں نمبر پر تھے لیکن ان کے باقی بھائی قوالی سے شغف نہیں رکھتے تھے، اس لیے چھوٹا ہونے کے باوجود خاندانی ذمہ داری ان کے والد نے سنبھالی۔
والد کے قتل کے بعد میڈیا کے رویے پر بات کرتے ہوئے مجدد صابری نے بتایا کہ میڈیا کے نامناسب رویے اور سوالات کی وجہ سے ان کے خاندان نے عارضی طور پر شہر چھوڑ دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ والد کے قتل کے بعد اگرچہ عوام ان سے ہمدردی کے لیے ان کے گھر آتے تھے، تاہم میڈیا والوں کا رویہ نامناسب تھا۔
مجدد صابری کے مطابق والد کے قتل کے بعد میڈیا والے نہ صرف ان کے اہل خانہ کو ٹی وی چینلز پر بلاتے تھے بلکہ ہر وقت ان کے گھر کے باہر چینلز کی ڈی ایس این جی وینز بھی کھڑی رہتی تھیں۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ 2016 سے 2017 تک کوئی ایسا دن نہیں تھا جب میڈیا والے ان سے بات نہ کرنے آئے ہوں، ان کے گھر کے باہر چینل کی گاڑی موجود نہ ہو یا انہیں چینلز پر بلایا نہ گیا ہو۔
مجدد صابری کے مطابق میڈیا کے نامناسب سوالوں اور رویوں کی وجہ سے ہی ان کا خاندان عارضی طور پر کراچی سے لاہور منتقل ہوگیا تھا۔
انہوں نے ٹی وی چینل کا نام لیے بتایا کہ ایک رپورٹر نے ان سے سوال کیا تھا کہ کیا انہیں والد یاد آتے ہیں؟
مجدد صابری کے مطابق انہوں نے رپورٹر کو جواب دینے کے بجائے ان سے پوچھا کہ ان کے والد زندہ ہیں؟ اور رپورٹر کی جانب سے والد کے حیات ہونے کی تصدیق کے بعد انہوں نے رپورٹر کو سوالیہ انداز میں کہا کہ جب ان کے والد انتقال کر جائیں گے، تب وہ یہی سوال ان سے پوچھنے آئیں تو انہیں جواب دیا جائے گا۔