سینیٹ کمیٹی برائے داخلہ نے انسانی اسمگلنگ کی سزائیں بڑھانے سے متعلق 3 بل منظور کرلیے
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے انسانی اسمگلنگ سے متعلق جرائم کی سزا میں اضافے سے متعلق 3 بل منظور کرلیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان میں سے ایک بل میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے ایکٹ 2018 میں ترمیم کی تجویز دی گئی ہے، تاکہ منظم بھیک مانگنے کو جرم کے طور پر شامل کیا جاسکے۔
ترامیم میں انسانی اسمگلنگ کے جرم میں قید کی سزا 7 سال سے بڑھا کر 10 سال اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی تجویز دی گئی ہے۔
بچوں اور خواتین کے خلاف جرائم کی مجوزہ سزا 14 سال قید اور 20 لاکھ روپے تک جرمانے کی ہے۔
اس حوالے سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ترامیم ’افراد، خاص طور پر خواتین اور بچوں کی اسمگلنگ کی روک تھام اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے موثر اقدامات، ان جرائم پر قومی اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے اور سہولت فراہم کرنے کے لیے نافذ کی گئی ہیں، سخت سزائیں جرم کے خلاف مزاحمت پیدا کریں گی۔
بل کے مطابق خلیجی ممالک، عراق اور ملائیشیا میں پاکستانی سفارت خانوں نے شکایت کی ہے کہ ان ممالک میں مذہبی اور ذاتی دوروں کے لیے آنے والے کچھ شہری وہاں بھیک مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔
انہوں نے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ بھیک مانگنے میں ملوث افراد اوران کے پیچھے موجود گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔
اس گھناؤنے فعل میں ملوث ایجنٹ اور گینگ آسانی سے قانونی چارہ جوئی سے بچ جاتے ہیں، کیونکہ ایف آئی اے کے دائرہ کار میں آنے والے کسی بھی قانون میں بھیک مانگنا جرم نہیں ہے۔
سینیٹ کمیٹی نے تارکین وطن کی اسمگلنگ کی روک تھام کے ایکٹ 2018 میں ترامیم کی بھی منظوری دی، جس کے تحت انسانی اسمگلنگ کی سزا 5 سال سے بڑھا کر 10 سال قید کر دی جائے گی۔
جرمانے کی رقم 10 لاکھ روپے سے بڑھا کر ایک کروڑ روپے کر دی گئی ہے۔
ترامیم میں غیر ملکی شہری کو پاکستان میں غیر قانونی طور پر پناہ دینے کی سزا کو ایک سے تین سال سے بڑھا کر دو سے پانچ سال کر دیا گیا ہے اور جرمانے کی حد کو دوگنا کرکے 20 لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔
کمیٹی نے امیگریشن آرڈیننس 1979 میں ترمیم کا بل بھی منظور کیا، جس کے تحت معمولی جرمانہ عائد کرنے کے بعد ملزمان کی رہائی کے عدالتی اختیارات ختم کیے جائیں گے، ترمیم میں جرمانے کے ساتھ لازمی قید کی تجویز دی گئی۔
سیکرٹری داخلہ خرم آغا نے انسانی اسمگلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے سخت قوانین کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مجوزہ قانون سازی میں مجرموں کے لیے مضبوط اور سخت سزاؤں کو یقینی بنانے کے اقدامات شامل ہیں۔
سینیٹ کمیٹی کے اجلاس کے دوران ایف آئی اے حکام نے تصدیق کی کہ عمرہ ویزے پر سعودی عرب جانے والے 10 پاکستانیوں کو بھیک مانگنے میں ملوث پائے جانے پر ڈی پورٹ کیا گیا۔
لاشوں کی واپسی
مراکش کے قریب کشتی حادثے میں جاں بحق ہونے والے 4 پاکستانیوں کی میتیں آج (بدھ کو) پاکستان پہنچیں گی۔
یہ افراد غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی کو حادثے میں مرنے والے درجنوں تارکین وطن میں شامل تھے، اس کشتی پر 66 پاکستانی بھی سوار تھے۔
اطلاعات کے مطابق بحر اوقیانوس میں افریقی انسانی اسمگلروں نے 40 سے زائد پاکستانیوں کو قتل کر دیا تھا، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ مقامی حکام صرف 13 افراد کی لاشیں برآمد کر سکے ہیں۔
سفارتی ذرائع کے مطابق جاں بحق ہونے والے 13 افراد کی شناخت سفیان علی ولد جاوید اقبال، سجاد علی ولد محمد نوا، رئیس افضل ولد محمد افضل، قاسم حیدر ولد محمد بنارس، محمد وقاص ولد ثنااللہ، محمد اکرم ولد غلام رسول، محمد ارسلان خان ولد رمضان خان، حامد شبیر ولد غلام شبیر، قیصر اقبال ولد محمد اقبال، دانش رحمان ولد محمد نواز، محمد سجاول ولد رحیم دین، شہزاد احمد ولد ولایت حسین اور احتشام ولد طارق محمود شامل ہیں۔
شبیر، ارسلان خان، قیصر اقبال اور سجاد علی کی میتیں سعودی ایئرلائن کی پرواز ایس وی 726 کے ذریعے اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچیں گی۔
ذرائع کے مطابق متاثرین کی شناخت وسیع پیمانے پر تصدیقی عمل کے بعد کی گئی، جس کے لیے ان کی تصاویر اور فنگر پرنٹس نادرا کو بھیجے گئے۔
اس سے قبل سانحے میں زندہ بچ جانے والے 22 پاکستانیوں کی وطن واپسی ہفتے کے روز مکمل ہوئی تھی۔
زندہ بچ جانے والے افراد کا تعلق پاکستان کے مختلف علاقوں سے ہے۔