گیس کی قیمتوں کو اوسط نہیں کیا گیا تو شعبہ پیٹرولیم میں دیوالیہ پن کا خطرہ ہے، مصدق ملک
وفاقی وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے خبردار کیا ہے کہ ’اگر درآمدی، پائپڈ اور ویل ہیڈ گیس کی اوسط قیمت کے ساتھ نقل و حمل، کھانا پکانے اور حرارتی مقاصد کے لیے منتقلی کی طرف ترغیب دینے کے لیے بجلی کے نرخوں کو معقول نہیں بنایا گیا تو پیٹرولیم کے شعبے میں دیوالیہ پن کا خطرہ ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کے اجلاس میں ڈاکٹر مصدق ملک نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے دو فیصلوں کی وجہ سے، جن میں ایل این جی کارگو کا معاہدہ اور صنعتی پاور پلانٹس (سی پی پیز) کو گیس کی فراہمی سے قومی پاور گرڈ میں منتقل کرنے کا وعدہ شامل ہے، اب حکومت آئی ایم ایف کی وجہ سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی۔
وفاقی وزیر نے یہ بھی انکشاف کیا کہ بائیو فیول ایتھنول پالیسی کو حتمی شکل دے دی گئی ہے جس کا اعلان کابینہ کی منظوری کے بعد ایک ماہ میں کردیا جائے گا تاکہ تمام پیٹرولیم مصنوعات کے معیارات کو یورو 5 تک بڑھانے کی حوصلہ افزائی کی جاسکے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) نے سسٹم میں گیس کے نقصانات کو 5 فیصد سے بھی کم کر دیا ہے، تاہم یہ ریگولیٹر کی جانب سے خاطر خواہ سرمایہ کاری کے ذریعے مقرر کردہ اہداف سے اب بھی کم ہے۔
تاہم ایس ایس جی سی ایل کے سسٹم کے نقصانات 13 سے 15 فیصد زائد تھے، کیونکہ اس کے 50 فیصد نقصانات بلوچستان سے ہوئے جس کا اس کی مجموعی گیس سپلائی میں صرف 17 سے 20 فیصد حصہ ہے، اور گیس میٹرز کی سالمیت کو یقینی بنانا مشکل تھا۔
سید مصطفیٰ محمود کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے بلوچستان ہائی کورٹ کے اس حکم پر تشویش کا اظہار کیا جس میں سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) کو صوبوں کے صارفین سے ماہانہ 5 ہزار 700 روپے سے زائد وصول کرنے سے روک دیا گیا تھا۔
اس حوالے سے مصدق ملک کا کہنا تھا کہ یہ انتظامی معاملات میں عدالتی مداخلت ہے، جب کہ کمیٹی ارکان نے کہا کہ اسے چیلنج کیا جانا چاہیے۔
وزیر پیٹرولیم اور ان کی ٹیم نے بتایا کہ اس حکم کو پہلے دن ہی چیلنج کیا گیا تھا، تاہم یہ برقرار ہے اور حکومت اور اس کے اداروں کو اس پر عمل کرنا ہوگا۔
آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت سندھ کے صنعتی یونٹوں سے گیس کی بلوچستان منتقلی پر سید نوید قمر کے اعتراضات کے حوالے سے وزیر پیٹرولیم نے کہا کہ بلوچستان میں سردیوں میں گیس کی فراہمی کم لیکن گرمیوں میں اضافی ہوتی ہے، لہٰذا یہ سندھ اور بلوچستان دونوں صوبوں میں ہوتا ہے، اس سے مذکورہ آئینی تقاضے کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ صنعتوں کے لیے مقامی گیس کی قیمت 2150 روپے فی یونٹ، جب کہ ایل این جی کی قیمت 3500 روپے فی یونٹ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں کی مجموعی قیمت اوسطاً 2400 سے 2600 روپے ہوگی، جہاں یہ توانائی کے شعبے کے لیے قابل عمل ہو جائے گی، جن کے ایل این جی پر مبنی چار پلانٹس زیادہ تر میرٹ آرڈر پر قابل عمل نہیں ہیں۔
مصدق ملک نے مزید کہا کہ ویل ہیڈ پر گیس کی قیمت کو شامل کرنے سے گیس کی اوسط قیمت مزید کم ہو کر 1700 روپے فی یونٹ ہو سکتی ہے اور درآمدی ایل این جی استعمال کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے، مقامی گیس کی پیداوار میں کمی سے پروڈیوسرز، صارفین اور پورے ملک کو نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے کہا کہ گیس کی فراہمی صرف 30 فیصد جبکہ 99 فیصد آبادی کو بجلی کی سہولت میسر ہے۔ لہٰذا بجلی کے شعبے کے ذریعے پالیسی ترغیب سے زیادہ تر آبادی کو کم قیمتوں اور بجلی کی موثر فراہمی کی صورت میں فائدہ ہو سکتا ہے اور گیس نیٹ ورک کی محدودیت کے باعث آب و ہوا اور اقتصادی لحاظ سے فائدہ مند ہے اور گیس کا استعمال ماحول کے لیے بھی اچھا نہیں ہے۔