’پاکستانی جیلوں میں قید خواتین اپنے قانونی حقوق سے لاعلم ہیں‘
دنیا بھر میں جیلوں میں قید خواتین کی تعداد میں مرد قیدیوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اگرچہ بہت سے ممالک کی جیلوں میں اب بھی خواتین قیدیوں کی آبادی کا تناسب کم ہے لیکن اگر عالمی سطح پر بات کی جائے تو جیلوں میں مرد قیدیوں کی تعداد میں 25 فیصد جبکہ خواتین قیدیوں کی شرح میں 33 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
دنیا بھر میں خواتین کو قید کی سزائیں ملنے کی سب سے زیادہ عام وجہ منشیات سے متعلقہ جرائم ہیں۔ دنیا بھر میں 35 فیصد خواتین منشیات سے متعلقہ جرائم کی پاداش میں قید ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں مردوں کی شرح 19 فیصد ہے۔
پاکستان کی جیلوں میں خواتین قیدیوں کی تعداد میں 2.8 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ 2024ء میں ایک ہزار 550 قیدیوں کے ساتھ خواتین جیل کی مجموعی تعداد کا 1.5 فیصد حصہ بنتی ہیں۔ ان 1.5 فیصد میں سے 73.41 فیصد خواتین کا ٹرائل جاری ہے۔ جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی طرف سے جاری کردہ نارکوٹکس اوفنسز فیکٹ شیٹ 2025ء کے مطابق پاکستان بھر میں 375 خواتین قیدی منشیات سے متعلقہ مقدمات میں قید ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (یو این او ڈی سی) کے مطابق عموماً دنیا بھر میں منشیات استعمال کرنے والوں میں تین چوتھائی سے زائد مرد ہیں، یعنی مرد خواتین کے مقابلے میں منشیات کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ تاہم خواتین کو ان جرائم میں زیادہ قید کی سزائیں ہوتی ہیں۔
ہمارے نظام عدل میں صنفی امتیاز کی وجہ سے خواتین کو انصاف تک مساوی رسائی نہیں مل پاتی۔ خواتین شاذ و نادر ہی منشیات کی تجارت میں ملوث پائی جاتی ہیں جبکہ وہ ترسیل کرنے والی غیرمشتبہ کوریئرز کے طور پر متحرک ہوتی ہیں۔ خواتین کی گرفتاری سے منشیات کے منظم جرائم کو زیادہ نقصان نہیں ہوتا۔ مگر وہ پولیس کے لیے آسان ہدف ہوتی ہیں۔
عام طور پر منشیات سے متعلقہ جرائم سنگین ہوتے ہیں جو ناقابلِ ضمانت ہوتے ہیں۔ تاہم ضابطہ فوجداری میں خواتین کی ضمانت کے حوالے سے خصوصی دفعات شامل ہیں۔ دفعہ (1)497 خواتین مجرمان کے لیے ضمانت کا حصول آسان بناتی ہے۔
ہمارے ملک میں خواتین کو اپنے قانونی حقوق کا علم نہیں اور وہ اکثر پسماندہ پس منظر سے تعلق رکھتی ہیں جبکہ وہ قانونی معاونت کے اخراجات بھی برداشت نہیں کرپاتی ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت منصفانہ ٹرائل کے حق فراہم کرنے میں ریاست کا کردار غیرمؤثر رہا ہے۔ مثال کے طور پر سندھ جیل خانہ جات اور اصلاحی خدمات ایکٹ 2019ء کے سیکشن 55 کے تحت قائم کی گئی کمیٹی برائے جیل خانہ جات، ’گھناؤنے جرائم‘ بشمول منشیات سے متعلق جرائم میں قانونی نمائندگی فراہم نہیں کرتی۔ اس سے جھوٹے الزام میں مقدمات اور جیل کی سزا جھیلنے والے افراد کو قانونی تحفظ نہیں مل پاتا۔
مجرمان کو انصاف دینے والے قانونی نمائندگان میں صنفی تنوع نہیں جوکہ عدالتی نظام عدل میں صنفی تعصب، دقیانوسی تصورات اور اس کی بدنامی میں کردار ادا کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں پولیس افسران، پروسیکیوٹرز اور ججز کے عہدوں پر بہت کم خواتین فائز ہوتی ہیں۔ نتیجتاً پدرشاہی معاشرے میں مردوں کی قانونی ضروریات کو ترجیح دی جاتی ہے حالانکہ خواتین قیدیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
اس کے علاوہ جیلوں میں قید خواتین کو اپنے طور پر مختلف چیلنجز درپیش ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ اپنے بچوں سے علحیدگی پر مجبور ہوتی ہیں، تعصب، تشدد، ادویات اور ری ہیب کی سہولیات تک انہیں بہت محدود رسائی حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے کی وجہ سے جیلوں میں قید خواتین بدنامی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ مرد جیل جائیں تو ان کی بیویاں دوران سزا اور بعد میں ان کا ساتھ دیتی ہیں لیکن خواتین اگر جیل جائیں تو ان کے خاوند، خاندان اور برادری انہیں چھوڑ دیتے ہیں۔
منشیات کنٹرول ایکٹ 1997ء میں 2022ء میں کی گئی ترمیم نے سزائے موت کو ختم کردیا ہے لیکن پھر بھی ایسی سخت سزائیں موجود ہیں جو غیر متناسب طور پر خواتین مجرمان پر بھی عائد ہوتی ہیں۔
نظام عدل میں شامل خواتین کے خلاف صنفی بنیاد پر امتیازی سلوک سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو ہر مرحلے پر درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے وسیع پیمانے پر کارروائیوں کی ضرورت ہے۔ ان کوششوں کو 2010ء کے اقوام متحدہ کے بنکاک کے قوانین کے مطابق ہونا چاہیے جو خواتین قیدیوں کے ساتھ سلوک اور ان پر پابندیوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، ساتھ ہی اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ خواتین کے ساتھ منصفانہ اور مناسب سلوک ہو۔
نظام عدل کا حصہ افراد کو آئین کے آرٹیکل 25 (3) کے مطابق خواتین اور بچوں کے لیے خصوصی دفعات فراہم کرنے والے قومی قوانین پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔
ریاست کو قانونی اصلاحات کے ذریعے خواتین کی غیر ضروری قید کو کم کرنے کے لیے نظام عدل کی صلاحیتوں میں اضافے کی تربیت اور غیر حراستی اقدامات کو فروغ دینا چاہیے۔ جہاں ممکن ہو وہاں ضمانت، پروبیشن اور پیرول کو قید کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔
قانونی معاونت کے لیے ویمن ان ڈسٹریس اینڈ ڈیٹینشن فنڈ ایکٹ 1996ء کو لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی ایکٹ 2020ء کے ذریعے منسوخ کردیا گیا تھا۔ یہ قانون خواتین کے حقوق کے تحفظ میں غیرمؤثر رہا ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو سماجی بحالی کے پروگرامز پر توجہ دیتے ہوئے خواتین کی مفت قانونی امداد تک رسائی کو مضبوط بنانا چاہیے۔
بلآخر ریاست کو جرائم کی روک تھام پر توجہ دینی چاہیے۔ جرائم کے بنیادی اسباب کو حل کرنے اور بحالی کے مؤثر پروگرام تیار کرنے سے مواقع پیدا ہوں گے۔ سخت سزاؤں پر انحصار کرنے کے بجائے ریاست کو مجرمان کو معاشرے کا دوبارہ حصہ بنانے اور دوبارہ جرم کرنے کے امکانات کو کم کرنے میں مدد کرنی چاہیے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔