• KHI: Asr 4:59pm Maghrib 6:40pm
  • LHR: Asr 4:27pm Maghrib 6:09pm
  • ISB: Asr 4:30pm Maghrib 6:13pm
  • KHI: Asr 4:59pm Maghrib 6:40pm
  • LHR: Asr 4:27pm Maghrib 6:09pm
  • ISB: Asr 4:30pm Maghrib 6:13pm

ججز کے تبادلے سے رینک تبدیل نہیں ہوتا، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ

شائع February 12, 2025
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز نے نئے ججز کی تعیناتی سے سنیارٹی لسٹ میں ترمیم کیخلاف درخواست دائر کی تھی
— فائل فوٹو:ڈان نیوز
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز نے نئے ججز کی تعیناتی سے سنیارٹی لسٹ میں ترمیم کیخلاف درخواست دائر کی تھی — فائل فوٹو:ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے نظر ثانی شدہ سنیارٹی لسٹ میں ججوں کے عہدوں کو کم کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے گزشتہ فیصلوں پر اعتماد کا اظہار کیا ہے، جس میں بھارتی سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ بھی شامل ہے، جس میں تقرریوں سے تبادلوں کو الگ کیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی جانب سے سنیارٹی لسٹ میں ترمیم کے خلاف دائر درخواست مسترد کردی تھی۔

یہ فیصلہ ججوں کے تبادلے اور سنیارٹی سے متعلق آئینی دفعات اور عدالتی مثالوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد جاری کیا گیا۔

یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب وزارت قانون و انصاف نے یکم فروری کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں 3 موجودہ ججوں جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمد آصف کا ان کے متعلقہ ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ کیا گیا تھا۔

جسٹس سردار سرفراز ڈوگر کا تبادلہ لاہور ہائی کورٹ، جسٹس خادم حسین سومرو کا تبادلہ سندھ ہائی کورٹ اور جسٹس محمد آصف کا تبادلہ بلوچستان ہائی کورٹ سے کیا گیا ہے، یہ تنازع ان تبادلوں کے بعد سنیارٹی فہرست میں تبدیلی کے گرد مرکوز تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججوں نے درخواست دائر کی تھی، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ آئین کے تحت ہائی کورٹ کے جج کو کسی دوسری ہائی کورٹ میں تبادلے کے بعد نیا حلف اٹھانا چاہیے، جس سے ان کی سنیارٹی رینکنگ متاثر ہونی چاہیے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے تفصیلی فیصلے میں جواب دیا، ان کے فیصلے میں کئی اہم قانونی اصولوں کا حوالہ دیا گیا، خاص طور پر ججوں کے تبادلے سے متعلق آئینی دفعات اور تبادلوں اور نئی تقرریوں کے درمیان فرق واضح کیا گیا۔

چیف جسٹس نے آئین کے آرٹیکل 200 کا حوالہ دیا، جو صدر پاکستان کو ایک جج کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں تبادلہ کرنے کی اجازت دیتا ہے، بشرطیکہ تبادلہ جج کی رضامندی اور چیف جسٹس آف پاکستان اور متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس سے مشاورت کے بعد کیا جائے۔

چیف جسٹس نے اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ تبادلہ آئینی طور پر درست ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نئی تقرری یا وصول کنندہ عدالت میں جج کی سنیارٹی میں تبدیلی کی جائے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت کسی جج کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں منتقلی پر نیا حلف لینے کی ضرورت نہیں ہے، ایک بار جب کوئی جج اپنی اصل ہائی کورٹ میں اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیتا ہے، تو اس حلف کا اطلاق تبادلے پر ہوتا رہتا ہے، لہٰذا، پچھلی ہائی کورٹ میں جج کے پاس جو سنیارٹی تھی، اسے سنیارٹی لسٹ میں اپنی پوزیشن کو تبدیل کیے بغیر نئے ہائی کورٹ میں لے جانا چاہیے۔

مزید برآں، چیف جسٹس نے ماضی کے فیصلوں کا حوالہ دیا، جس میں بھارتی سپریم کورٹ کا ایک اہم فیصلہ بھی شامل ہے، جس میں ججوں کے تبادلے اور تقرری کے درمیان فرق کیا گیا تھا، بھارتی کیس کے فیصلے سے اس خیال کو تقویت ملی کہ تبادلے سے نئی تقرری نہیں ہوتی، اور جج کی اصل سنیارٹی اس وقت بھی برقرار رہتی ہے، جب انہیں کسی دوسرے ہائی کورٹ میں دوبارہ تعینات کیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے فریم ورک بالخصوص آرٹیکل 194 اور 200 میں نئے حلف یا سنیارٹی کی تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں ہے، انہوں نے نشاندہی کی کہ اگر ارادہ تبادلہ شدہ ججوں کی سنیارٹی کو دوبارہ ترتیب دینے کا ہوتا تو آئین میں اس طرح کی شق کو واضح طور پر بیان کیا جاتا۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ایک بار کسی جج کی تقرری اور حلف لینے کے بعد اس کی مدت ملازمت ریٹائرمنٹ کی عمر تک جاری رہتی ہے، یا جب تک کہ انہیں ہٹا کر سپریم کورٹ میں ترقی نہیں دی جاتی یا ان کا انتقال نہیں ہوجاتا۔

فیصلے میں واضح طور پر کہا گیا کہ تبادلہ ایک طریقہ کار کا معاملہ ہے، جو جج کی بنیادی حیثیت یا سنیارٹی کو تبدیل نہیں کرتا، اس طرح، نظر ثانی شدہ سنیارٹی لسٹ، جس میں ججوں کو کم رینک میں رکھا گیا تھا، کو آئینی دفعات کے مطابق جائز ٹھہرایا گیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے آئینی دفعات اور قانونی روایات کی روشنی میں فیصلہ سنایا کہ سنیارٹی لسٹ میں تبدیلی کو چیلنج کرنے والی درخواست مسترد کی جائے، 3 ججوں کے تبادلے کی عکاسی کرنے کے لیے سنیارٹی لسٹ پر نظر ثانی کی گئی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو ہدایت کی گئی کہ فیصلے کی کاپیاں متعلقہ ججز کو ارسال کی جائیں۔

سنیارٹی تنازع کے علاوہ جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط بھی لکھا، جس میں 3 فروری کی سنیارٹی لسٹ کی قانونی حیثیت اور انتظامی اور محکمانہ پروموشن کمیٹیوں میں تبادلہ شدہ ججز کی شمولیت پر سوال اٹھایا گیا۔

جسٹس بابر ستار نے جسٹس خادم حسین سومرو کی ایڈمنسٹریشن کمیٹی میں تقرری پر خصوصی طور پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد جوڈیشل سروس رولز کے رول 2 کے تحت، جو پنجاب جوڈیشل سروس رولز سے منظور کیا گیا تھا، صرف 2 سینئر ترین ججز کمیٹی کا حصہ ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے جسٹس خادم حسین سومرو کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی سنیارٹی لسٹ میں نویں نمبر پر شامل کرکے غیر ضروری صوابدید کا استعمال کیا۔

تاہم ڈان کے پاس دستیاب رول 2 کی کاپی میں کہا گیا ہے کہ ایڈمنسٹریشن کمیٹی 7 ججوں پر مشتمل ہوگی، چیف جسٹس اور سینئر جج عہدے دار ممبر ہوں گے، اور چیف جسٹس سالانہ کمیٹی کے دیگر 5 ارکان کو نامزد کریں گے۔

ہائیکورٹ کے ایک سابق جج نے وضاحت کی کہ اس قاعدے کی روشنی میں چیف جسٹس اور سینئر جج کو ایڈمنسٹریشن کمیٹی سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، تاہم یہ چیف جسٹس کی صوابدید ہے کہ وہ ہر سال کمیٹی میں ہائی کورٹ کے کسی جج کو نامزد کریں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی میں جسٹس خادم حسین سومرو کی تعیناتی کا تنازع شاید پنجاب جوڈیشل سروس رولز کی تفہیم کی وجہ سے ہے۔

کارٹون

کارٹون : 12 مارچ 2025
کارٹون : 11 مارچ 2025