ایف بی آر کا سولر پینلز کی درآمد میں ’بڑے پیمانے پر اوور انوائسنگ‘ کا انکشاف
سینیٹ کے پینل کے سامنے چونکا دینے والے انکشافات کیے گئے جس میں 80 سے زائد کمپنیوں کی جانب سے سولر پینلز کی درآمدات کی آڑ میں 110 ارب روپے سے زائد کے فراڈ اور منی لانڈرنگ کی تصدیق کی گئی، جن میں سے کچھ ڈمی کمپنیاں پائی گئیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹر محسن عزیز کی سربراہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اس اسکینڈل کی تحقیقات جاری رکھے گی اور تمام ذمہ داروں کا احتساب کرے گی۔ کمیٹی نے متعلقہ ڈیٹا فراہم کرنے میں تعاون نہ کرنے پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے حکام نے سولر پینلز کی درآمد کے ذریعے اوور انوائسنگ اور تجارت پر مبنی منی لانڈرنگ کے اہم انکشافات کیے۔ ایک کیس میں ایف بی آر نے انکشاف کیا کہ سولر پینلز درآمد کرنے والی ایک خاص کمپنی کے مالک نے سرکاری دستاویزات میں خود کو ایک تنخواہ دار فرد کے طور پر پیش کیا۔ کمپنی نے تقریباً 2.29 ارب روپے کے سولر پینلز درآمد کیے اور 2.58 ارب روپے سے زیادہ کی فروخت ظاہر کی۔
سینیٹ سیکریٹریٹ نے کہا کہ ایف بی آر نے بڑے پیمانے پر اوور انوائسنگ اور مشکوک ٹرانزیکشنز کے چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں۔ ٹیکس اتھارٹی کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ کمپنیوں نے سولر درآمدات کے لیے تقریباً 106 ارب روپے منتقل کیے ہیں۔ تحقیقات کے دوران 69 ارب روپے کی اوور انوائسنگ کا پتا چلا۔
مجموعی طور پر ایف بی آر نے سولر پینلز کی درآمد کے اسکینڈل میں ملوث 80 مشکوک کمپنیوں کی نشاندہی کی ہے، ان میں سے 63 کمپنیوں کو، جن کا لین دین 69 ارب روپے تھا، اوور انوائسنگ کے لیے نشان زد کیا گیا۔
ایف بی آر نے ملوث کمپنیوں کے خلاف 13 ایف آئی آر درج کرائی ہیں۔ مزید پوچھ گچھ سے یہ بات سامنے آئی کہ کئی کمپنیاں جیسے برائٹ اسٹار، مون لائٹ، اسد اللہ انٹرپرائزز اور اسمارٹ امپیکس اوور انوائسنگ میں ملوث تھیں۔
سینیٹر محسن عزیز نے ان کمپنیوں کے سولر امپورٹ ٹرانزیکشنز میں شامل نجی بینکوں میں سے ایک سے مزید وضاحت اور ٹرانسفر کی گئی رقوم اور کمپنیوں کی کاروباری سرگرمیوں کی نوعیت پر شفافیت کا مطالبہ کیا۔
ایف بی آر حکام نے شناختی کارڈز کے غلط استعمال سے متعلق تشویشناک انکشاف کیا۔ کئی افراد نے جھوٹے بہانوں سے بڑی رقم جمع کرائی۔ ایک شخص نے بینک میں ایک کروڑ 40 لاکھ روپے جمع کرائے لیکن بعد میں لین دین سے انکار کر دیا، جب کہ دوسرے نے دعویٰ کیا کہ اس نے اپنی زندگی میں اتنی بڑی رقم کبھی نہیں دیکھی۔
کمیٹی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس معاملے میں بہت زیادہ ملوث ایک کمپنی برائٹ اسٹار نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ اس نے زیادہ قیمتوں پر سولر پینلز درآمد کیے اور انہیں مقامی مارکیٹ میں کم نرخوں پر فروخت کیا۔ ایف بی آر حکام نے اس بات پر زور دیا کہ برائٹ اسٹار ایک جعلی اور بوگس کمپنی تھی جو دھوکہ دہی پر مبنی شمسی امپورٹ سرگرمیوں میں ملوث تھی۔
مزید تفتیش سے یہ بات سامنے آئی کہ اگرچہ سولر پینل چین سے درآمد کیے گئے تھے لیکن ان لین دین کے لیے فنڈز غیر قانونی طور پر 10 دیگر ممالک میں منتقل کیے گئے تھے۔ ذیلی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ 18 ارب روپے سے زائد رقم بیرون ممالک بھیجی گئی جس کی مزید جانچ پڑتال کی ضرورت ہے۔
ایک اور نجی بینک کے نمائندوں نے کمیٹی کے سامنے گواہی دی کہ برائٹ اسٹار اور مون لائٹ نے بڑی رقوم کی متعدد ٹرانزیکشنز کیں۔ برائٹ اسٹار کی کُل 18 کروڑ 50 لاکھ روپے کی کیش ڈپازٹس کی صورت میں چار ٹرانزیکشنز ہوئیں، جبکہ مون لائٹ کی 4 کروڑ 90 لاکھ روپے کی دو ٹرانزیکشنز ہوئیں۔
اس کا علم ہونے کے بعد، بینک نے منی لانڈرنگ قانون کے تحت مطلوبہ مشتبہ لین دین کی رپورٹس جاری کیں۔
ایک اور کیس میں، ایف بی آر نے انکشاف کیا کہ زیر تفتیش کمپنی اسمارٹ امپیکس کے پاس صرف 2 ہزار روپے کا اعلان کردہ ادا شدہ سرمایہ تھا۔ اس کے باوجود، اس نے 1.54 ارب روپے سے زیادہ نقد جمع کرائے جبکہ کل ڈپازٹس 3.39 ارب روپے تک پہنچ گئے۔
ذیلی کمیٹی نے اگلے اجلاس میں مزید انکوائری کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن بار بار طلب کرنے کے باوجود سولر پینلز کی درآمد کرنے اسکینڈل میں ضروری معلومات فراہم کرنے میں اسٹیٹ بینک کی ناکامی پر تشویش کا اظہار کیا۔ تاہم اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر نے کمیٹی کو یقین دلایا کہ سولر درآمدات سے متعلق تمام ڈیٹا اکٹھا کرکے اگلے اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔