• KHI: Zuhr 12:46pm Asr 4:51pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 4:14pm
  • ISB: Zuhr 12:22pm Asr 4:16pm
  • KHI: Zuhr 12:46pm Asr 4:51pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 4:14pm
  • ISB: Zuhr 12:22pm Asr 4:16pm
—ہیڈر: کرک انفو

’عاقب جاوید! کیا آپ اس ٹیم کے ساتھ چیمپیئنز ٹرافی جیتیں گے؟‘

پاکستان کا مسئلہ کارکردگی میں غیر مستقل مزاجی ہے جبکہ زمبابوے اور نیپال جیسی ٹیموں کے خلاف جیت پر جشن منانے کی روایت نے ٹیم کو سہل پسند اور سخت جنگ سے معذور بنادیا ہے۔
شائع February 17, 2025

پاکستان کرکٹ بورڈ نے چیمپیئنز ٹرافی سے قبل کوشش کی تھی کہ ایک روزہ کرکٹ کے دوسرے سب سے بڑے آئی سی سی ایونٹ کی تیاری کے لیے ایک سہ فریقی سیریز کروائی جائے جو ٹیم کو صیقل کرسکے اور کرکٹ بورڈ کو دولت مند۔

نیوزی لینڈ کی ٹیم اگرچہ سال سے بہترین ٹیسٹ ٹیم ہے لیکن ایک روزہ میچز میں انہیں سب سے کم میچ کھیلنے کو ملے ہیں جن میں بھی انہوں نے غیر متاثر کُن کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ جبکہ جنوبی افریقہ کی ٹیم بھی منتشر اور مضمحل ہے۔ دونوں ٹیموں کو لے کر پاکستان نے سہ فریقی سیریز کا ایک ایسا خیال پیش کیا جو قدرے محفوظ اور خوش کن تھا مگر ان دونوں ٹیموں نے پاکستان کو بقول شخصے دھو ڈالا۔

جنوبی افریقہ تو خیر پاکستان کو ہدف تک پہنچنے سے نہ روک سکی لیکن نیوزی لینڈ نے دونوں میچز میں پاکستان کو روند ڈالا۔ لاہور میں ایک زبردست بیٹنگ پچ پر گلین فلپس نے جو حال پاکستان باؤلنگ کا کیا اس نے ٹیم مینجمنٹ سے تماشائیوں تک سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ آخری 7 اوورز میں 98 رنز نے کھیل کا نقشہ پلٹ دیا۔ اگرچہ نیوزی لینڈ 42ویں اوور تک 240 تک پہنچی تھی اس لیے سب کو توقع تھی کہ کہانی 300 سے نیچے ہی رہے گی لیکن فلپس نے ہائی وولٹیج اننگز کھیل دی اور پاکستان ٹیم پہاڑ جیسا ہدف دیکھ کر گھبرا گئی۔

جنوبی افریقہ نے بھی پاکستان کے خلاف خوب ہاتھ کھولے۔ 352 رنز ایک مناسب اور جیت کا محور مجموعہ تھا لیکن جنوبی افریقہ کی ناتجربہ کار باؤلنگ پاکستان کی پہلی 3 وکٹ جلد گر جانے کے باوجود سلمان علی آغا اور محمد رضوان کی شاندار رفاقت کو نہ توڑ سکی۔ دونوں نے سنچریاں بناکر پاکستان ٹیم کو فائنل تک تو پہنچادیا جہاں ایک بار پھر نیوزی لینڈ کی ٹیم دو دھاری تلوار لیے ان کی منتظر تھی۔

  جنوبی افریقہ کی ناتجربہ کار باؤلنگ رضوان سلمان آغا کی پارٹنر شپ توڑ نہ پائی—تصویر: اے ایف پی
جنوبی افریقہ کی ناتجربہ کار باؤلنگ رضوان سلمان آغا کی پارٹنر شپ توڑ نہ پائی—تصویر: اے ایف پی

کراچی کی سُست اور بے جان پچ پر بیٹنگ آسان نہ تھی۔ گیند رک کر آرہی تھی۔ ایسے میں نیوزی لینڈ نے پاکستان کی بیٹنگ کو اپنی نپی تلی باؤلنگ سے مزید پریشان کردیا جبکہ باؤلر ول او رورکے نے سمندری ہوا کے باوجود پاکستانی بیٹنگ کو حبس زدہ کردیا۔ ان کی لیٹ سوئنگ باؤلنگ نے نیتھن اسمتھ اور بریسویل کے ساتھ مل کر پاکستان کے تینوں ٹاپ آرڈر بلے باز محض 54 رنز پر ہی رخصت کردیے تھے۔

پاکستان جیسے تیسے 242 رنز تک پہنچ گیا لیکن نیوزی لینڈ نے نہ صرف باآسانی یہ ہدف عبور کیا بلکہ پاکستان ٹیم کو باور کروایا کہ جدید دور کی کرکٹ مختلف ہے جو اپنے بل بوتے پر کھیلی جاتی ہے، دعاؤں کے سہارے نہیں۔

فائنل میچ کے بعد پاکستان کے ہیڈ کوچ عاقب جاوید پریس کانفرنس میں بجھے بجھے سے نظر آئے۔ مایوسی اور تھکن چہرے سے عیاں تھی۔ وہ خراب کارکردگی اور غیر موزوں سیلیکشن پر صحافیوں کے سوالات نرغے میں آئے۔ ایک مستند اوپنر کی جگہ بابر اعظم سے اوپننگ کے سوال پر انہوں نے جب امیدوں کا ذکر کیا تو وہ ایک صحافی کے سوال کا جواب نہ دے سکے کہ کیا اب صرف اندازے اور مفروضوں پر کرکٹ کھیلی جائے گی؟

عاقب نے پہلے تو سوال سمجھنے سے انکار کیا لیکن پھر بابر اعظم کی تعریفوں کے پُل باندھتے ہوئے ان سے کبھی نہ کبھی بڑی اننگز کھیلے جانے کی امیدیں باندھ لیں۔ ایک محنتی اور قابل کرکٹ کوچ کے ان الفاظ نے ثقلین مشتاق کے ’قدرت کے نظام‘ کی یاد تازہ کردی۔ عاقب شکست پر شرمندگی کے بجائے امیدوں کے خیالی پُل باندھ رہے ہیں۔

مت بھولیے کہ بابر نہ تو سچن ٹنڈولکر ہیں اور نہ ہی ہاشم آملہ جو ون ڈے میچز میں اوپنر بن جاتے تھے۔ بابر اعظم گزشتہ دو سال سے بیٹنگ کے شعبے میں جدوجہد کررہے ہیں۔ انہوں نے دو سال میں صرف 2 نصف سنچری بنائی ہیں جبکہ سہ ملکی سیریز میں وہ صرف 62 رنز بنا سکے ہیں۔ اس کارکردگی پر شرمندہ ہونے کے بجائے عاقب جاوید نئی توقعات وابستہ کررہے ہیں اور مطمئن ہیں کہ بابر ہی سب سے بہتر اوپنر ہیں۔

  بابر اعظم بطور اوپنر تین میچز میں محض 62 رنز بنا سکے—تصویر: اے پی
بابر اعظم بطور اوپنر تین میچز میں محض 62 رنز بنا سکے—تصویر: اے پی

ایک کھلاڑی جو اس قدر بری کارکردگی دکھا رہا ہو، آپ کب تک اسے اوپنر بھیج کر اس کے ساتھ ظلم کرتے رہیں گے؟ ویسے ایک اور سیلیکٹر اسد شفیق اپنی لاعلمی کے باعث سعود شکیل کو اوپنر بتاتے رہے۔ سعود شکیل بھی ٹیسٹ کرکٹ کی بنیاد پر ون ڈے ٹیم پر مسلط ہیں۔ ان کے متعلق مشہور ہے کہ وہ اسپنرز کو بہت اچھا کھیلتے ہیں لیکن جس طرح بریسویل نے انہیں بولڈ کیا اس پر کلب کرکٹر بھی ان کا مذاق اڑا رہے ہوں گے۔

پاکستان کا اصل مسئلہ کارکردگی میں غیر مستقل مزاجی ہے جس کے پاکستانی بلے باز عادی ہوچکے ہیں۔ ایک اچھی اننگز کھیل کر وہ خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ یہی وہ مزاج ہے جس نے ٹیم کو لاابالی بنادیا ہے۔ غیر ضروری ستائش نے اس ٹیم کو کھیل کی نوعیت سمجھنے سے محروم کردیا ہے۔ زمبابوے اور نیپال جیسی ٹیموں کے خلاف جیت پر جشن منانے کی روایت نے ٹیم کو سہل پسند اور سخت جنگ سے معذور بنادیا ہے۔ زمبابوے کی چوتھے درجے کی ٹیم کے خلاف سیریز جیتنے پر وزیر اعظم کی شاباش مضحکہ خیز لگتی ہے۔ ایسا شاید ہی کسی ملک میں ہوتا ہو جب ملک کا وزیر اعظم ویسٹ انڈیز کی کمزور ترین ٹیم کے خلاف جیت پر مبارکباد کے ڈھیر لگادے۔

یہ ایک قومی روایت بن چکی ہے کہ ہر معمولی سے کام کو بھی مذہب کے جذباتی کارڈ سے نتھی کردو۔ جنوبی افریقہ کے خلاف جیت پر کپتان محمد رضوان کا غیبی مدد کا ذکر مذہبی طور پر شاید ایک احسن لفظ ہو لیکن کھیل کے میدان میں غیبی مدد نہیں بلکہ محنت اور مہارت سے جیت حاصل کی جاتی ہے۔ اگر جنوبی افریقہ کے خلاف جیت غیبی مدد تھی تو نیوزی لینڈ کی فائنل میں جیت کیا نیوزی لینڈ کے لیے غیبی مدد تھی؟

شعوری طور پر ایسے بیانات دراصل جذباتیت کو ہوا دے کر اصل مسائل سے راہ فرار کا طریقہ ہوتے ہیں۔ اگر آپ کی باؤلنگ مخالف ٹیم کو 352 رنز کا ہدف دینا آسان بنا رہی ہے تو آپ اپنی باؤلنگ کا جائزہ لیجیے۔

اگر عمیق نگاہوں سے سہ فریقی سیریز کا جائزہ لیں تو بیٹنگ میں فقط سلمان آغا اور رضوان کی دو اننگز کے علاوہ تمام بلے باز اور ان کے پیٹی بند بھائی باؤلرز ناکام رہے۔ عاقب جاوید نے پاکستانی باؤلنگ کو چیمپیئنز ٹرافی کی سب سے بہترین باؤلنگ لائن قرار دیا لیکن کیا وہ اس باؤلنگ لائن کی ماضی قریب میں کوئی ایک بھی زبردست کارکردگی ہمیں دکھا سکتے ہیں؟

شاہین آفریدی اور نسیم شاہ بھی بہتر باؤلنگ نہ کرسکے۔ شاہین شاہ اور نیوزی لینڈ کے باؤلر ول رورکے دونوں نے سہ فریقی سیریز میں 6 وکٹیں لیں لیکن شاہین نے رنز بہت زیادہ دیے جبکہ رورکے اپنی ٹیم کو میچ جتواتے رہے۔

  شاہین نے سہ ملکی سیریز میں مخالف ٹیموں کو بہت زیادہ رنز دیے—تصویر: پی سی بی
شاہین نے سہ ملکی سیریز میں مخالف ٹیموں کو بہت زیادہ رنز دیے—تصویر: پی سی بی

اسی طرح پاکستان کے اسپنر ابرار احمد کسی ایک میچ میں بھی متاثر نہ کرسکے جنہوں نے بے تکی اور ہدف سے دور باؤلنگ کی جبکہ انہی پچز پر نیوزی لینڈ کے مچل سارٹنر اور بریسویل نے میدان لوٹ لیا۔ سارٹنر پاکستانی بلے بازوں کے لیے دردِ سر بنے لیکن ہمارے ابرار کیویز کے لیے سوہن حلوہ۔

عاقب جاوید، فہیم اشرف اور خوشدل شاہ کی غلط سیلیکشن پر نادم ہونے کے بجائے ہر روز نئی تاویل لے آتے ہیں۔ کبھی ان کی بیٹنگ کی تعریف اور کبھی باؤلنگ کی۔ فہیم اشرف نے صرف ایک میچ کھیلا اور دو اوورز کیے۔ کپتان کو ان پر بالکل اعتماد نہیں ہے۔ خوشدل شاہ تمام میچز کھیل کر فقط ایک وکٹ لے سکے جبکہ 132 کھائے۔ بیٹنگ میں خوشدل شاہ تمام میچ کھیل کر 22 رنز بناسکے۔ وہ کھلاڑی جنہیں میچ فنیشر بنا کر لائے ہیں، وہ اپنی ہی ٹیم کو فنیش کررہے ہیں۔ خوشدل شاہ بلے بازی میں ٹیل اینڈر جبکہ باؤلنگ میں کسی کام کے نہیں۔

چیمپیئنز ٹرافی سے قبل پاکستان ٹیم کو دیکھتے ہوئے شائقین کو شکر گزار ہونا چاہیے کہ پاکستان میزبان ہے ورنہ ممکن تھا کہ گرین شرٹس بھی سری لنکا کی ٹیم کی طرح اپنے گھر پر باربی کیو کررہے ہوتے۔

سید حیدر

لکھاری جرمن نشریاتی ادارے سے منسلک ہیں، مختلف ٹی وی چینلز پر کرکٹ پر تبصروں کے لیے بطور مبصر شرکت کرتے ہیں اور کھیلوں پر ان کے تجزیے مختلف اشاعتی اداروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر Syedhaider512@ پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔