مصطفیٰ عامر نے مقامی سم استعمال نہیں کی، اس لیے تکنیکی طور پر ’لاپتا‘ رہا، آئی جی سندھ
انسپکٹر جنرل آف پولیس سندھ غلام نبی میمن نے کہا ہے کہ ڈیفنس میں اغوا کے بعد دوست کے ہاتھوں قتل ہونے والے نوجوان مصطفیٰ عامر نے مقامی سم استعمال نہیں کی، اس لیے تکنیکی طور پر وہ پولیس کے لیے ’لاپتا‘ رہا۔
مصطفٰی عامر اغوا اور قتل کیس کی تحقیقات کے دوران ’غیر پیشہ ورانہ طرز عمل‘ پر درخشاں تھانے کے ایس ایچ او سمیت 3 جونیئر پولیس افسران کو معطل کر دیا گیا اور ان کے عہدوں میں تنزلی کر دی گئی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 23 سالہ نوجوان مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو اپنی گاڑی میں ڈی ایچ اے کی رہائش گاہ سے نکلا تھا، لیکن واپس نہیں آیا، اس کی والدہ نے ایک رپورٹ درج کرائی اور دو ہفتے بعد جب اسے تاوان کی کال موصول ہوئی تو معاملہ انسداد تشدد کرائم سیل (اے وی سی سی) کو منتقل کر دیا گیا.
تاہم تحقیقات کی سست رفتاری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پولیس فروری کے پہلے ہفتے تک مرکزی ملزم ارمغان کا سراغ لگانے میں ناکام رہی۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی سندھ) غلام نبی میمن نے ڈان کو تصدیق کی کہ ضلع جنوبی پولیس کے 3 افسران کو ان کے نامناسب پیشہ ورانہ رویے پر معطل کرتے ہوئے ان کے عہدوں تنزلی کی گئی ہے۔
تاہم انہوں نے تحقیقات کے ذمہ دار سینئر پولیس افسران کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ معاملے کی ابتدائی تحقیقات کے دوران انہیں متعدد عوامل کی وجہ سے کچھ ’رکاوٹوں‘ کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مقتول مصطفیٰ عامر نے کوئی مقامی سم استعمال نہیں کی تھی، جس کی وجہ سے وہ تکنیکی طور پر پولیس کے لیے لاپتا رہا۔
دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ متاثرہ شخص کو پہلے بھی اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) نے منشیات کے مقدمے میں گرفتار کرکے چارج شیٹ دائر کی تھی، ابتدائی طور پر پولیس کو شبہ تھا کہ اسے قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے ساتھ لے گئے ہوں گے، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ ان کی تحویل میں نہیں ہے۔
مزید برآں، آئی جی سندھ نے کہا کہ خاندان کو تاوان کی کال بھی غیر متوقع طور پر بہت دیر سے موصول ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر جب کوئی لاپتہ ہوتا ہے تو پولیس اس بات پر غور کرتی ہے کہ آیا متاثرہ کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا ہے، یا اس میں کوئی اور ملوث ہے۔
کئی دن کے بعد، اہل خانہ کو تاوان کی کال موصول ہوئی، جو اب تفتیش کاروں کی توجہ ہٹانے کے لیے مرکزی ملزم کی طرف سے جان بوجھ کر اٹھایا گیا اقدام معلوم ہوتا ہے۔
کال کے بعد یہ کیس اے وی سی سی کو منتقل کر دیا گیا، جس نے سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی ( سی پی ایل سی) کے تعاون سے نوجوان کی بازیابی کے لیے کوششیں شروع کیں، تاہم، بعد میں یہ پتہ چلا کہ اسے اغوا کے پہلے ہی دن قتل کر دیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ دوستوں کے درمیان ایک ’تنازع‘ تھا جس پر ’انتہائی کارروائی‘ کی گئی جس کے نتیجے میں مصطفیٰ کا قتل ہوا۔
آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ قتل کے بعد 2 ملزمان ابتدائی طور پر شہر چھوڑ کر لاہور چلے گئے اور بعد ازاں سکردو چلے گئے، انہوں نے بتایا کہ مرکزی ملزم گرفتاری سے 3 سے 4 روز قبل کراچی واپس آیا تھا، دوسرا ملزم شیراز عرف شاویز بخاری گرفتاری سے دو روز قبل کراچی واپس آیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ارمغان کی گرفتاری کے بعد تفتیش کاروں کو ایک اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، کیوں کہ متعلقہ عدالت نے تفتیش کے لیے ان کا ریمانڈ پولیس کو نہیں دیا، بلکہ اسے جیل بھیج دیا، اب پولیس نے مرکزی ملزم کے ریمانڈ کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دائر کر دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب ہماری توجہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے کیس کی بہتر تحقیقات کو یقینی بنانے پر ہے، تفتیش کاروں کی ایک بہتر ٹیم تشکیل دی گئی ہے، جو بہتر نتائج کے لیے پراسیکیوٹر جنرل سندھ کی نگرانی میں کام کرے گی۔
آئی جی نے اہل خانہ پر زور دیا کہ وہ تفتیش کاروں کے ساتھ تعاون کریں۔
ڈی آئی جی ضلع جنوبی سید اسد رضا نے بتایا کہ 3 افسران کو معطل کر دیا گیا ہے، کیوں کہ وہ اس معاملے میں کوئی ’پیش رفت‘ نہیں کر سکے تھے۔
مصطفیٰ عامر کی والدہ کی مبینہ ویڈیو کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں رضا نے کہا کہ وہ اس ویڈیو سے آگاہ ہیں، جس میں غم زدہ والدہ نے ایس ایس پی ساؤتھ انویسٹی گیشن کو ’متاثرہ پر الزام‘ لگانے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے الزامات کی تحقیقات کی جائیں گی۔
ڈی آئی جی اسد رضا کی جانب سے جاری کیے گئے 2 احکام کے مطابق مصطفیٰ عامر اغوا کیس کے سلسلے میں درخشاں تھانے کے ایس ایچ او سب انسپکٹر عبدالرشید پٹھان، سب انسپکٹر ذوالفقار احمد اور انویسٹی گیشن آفیسر (ایس آئی) افتخار احمد کی بالترتیب اے ایس آئی اور ہیڈ کانسٹیبل کے عہدوں پر تنزلی کی گئی ہے۔
ان افسران پولیس ہیڈکوارٹر گارڈن بھیج دیا گیا ہے، جہاں وہ روزانہ رول کال / پریڈ میں شرکت کریں گے، وہ قواعد کے تحت قابل قبول تنخواہ اور الاؤنس حاصل کریں گے۔