• KHI: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • ISB: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • KHI: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • ISB: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am

’پاکستان کے ساتھ تعلقات کا انحصار امریکی مفادات پر ہوگا‘

شائع February 17, 2025
— فوٹو: ’ایکس‘ ریپ ہیلے اسٹیونز
— فوٹو: ’ایکس‘ ریپ ہیلے اسٹیونز

پاکستانی نژاد امریکی گروپ جس طرح نئی کانگریس کے ساتھ رابطے کی کوششیں بڑھا رہے ہیں، یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ اسلام آباد کے حوالے سے واشنگٹن کی پالیسی کسی اور چیز کے بجائے امریکی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے مفادات پر منحصر ہوگی۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پاکستانی امریکن پولیٹیکل ایکشن کمیٹی (پاک پیک) نے پورے ہفتے کیپیٹل ہل میں اجلاس منعقد کیے، جس میں قانون سازوں پر زور دیا گیا کہ وہ پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق پر مضبوط موقف اختیار کریں۔

پورے ہفتے کارکنوں نے امریکی سینیٹرز اور نمائندگان سے ملاقاتیں کیں اور ان پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں انتخابی شفافیت، اظہار رائے کی آزادی اور سیاسی جبر کے حوالے سے خدشات کو دور کریں۔

سابق صدر عارف علوی نے اس مہم میں اہم کردار ادا کیا اور تقریباً ایک درجن قانون سازوں سے بات چیت کی اور انہیں ملک کی سیاسی صورتحال سے آگاہ کیا۔

اگرچہ پاک پیک کا موقف ہے کہ اس کی وکالت کسی سیاسی جماعت کے لیے نہیں ہے، لیکن بظاہر وہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

مہم میں شامل کئی امریکی قانون سازوں نے پاکستان کے طرز جمہوریت پر تشویش کا اظہار کیا۔

کانگریس کے رکن جو ولسن نے سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو سے ملاقات کے بعد ٹوئٹ کیا کہ ’مارکو روبیو سے ملاقات کا شکر گزار ہوں، وہ دنیا بھر میں آزادی اور جمہوریت کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں، میں پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا منتظر ہوں۔‘

کانگریس کے رکن جیک برگ مین نے بھی تحریک کی حمایت میں آواز اٹھاتے ہوئے ڈاکٹر عارف علوی اور عمران خان کے سابق معاون ڈاکٹر شہباز گل سے اپنی ملاقات کے حوالے سے بھی ٹوئٹ کیا۔

اگرچہ پاکستانی-امریکیوں کو کانگریس سے کچھ ہمدردانہ تاثر ملا ہے، تاہم واشنگٹن کا مجموعی موقف امریکا کے اسٹریٹجک مفادات پر مرکوز ہے۔

ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین کانگریس مین برائن ماسٹ نے واضح کیا ہے کہ گو کہ واشنگٹن نے پاکستانی جمہوریت پر تشویش کا اظہار کیا ہے، تاہم امریکی خارجہ پالیسی کا مرکز قومی سلامتی اور اقتصادی ترجیحات ہی رہیں گی۔

پاک پیک کے پانچویں سالانہ دو طرفہ کانگریشنل اوپن ہاؤس میں برائن ماسٹ نے اس موقف کو واضح کیا کہ ’ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ خرچ کیا جانے والا ہر ڈالر امریکا کی قومی سلامتی اور مفادات کے مطابق ہو۔‘

جنوبی ایشیا کے ماہر مائیکل کوگل مین نے بھی اسی خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’صدر ٹرمپ کے دوسرے دور اقتدار میں پاکستان کو امریکی حمایت حاصل کرنے کے لیے ٹھوس اقدمات کرنے ہوں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس میں ہمارے لیے کیا ہے؟ یہ امریکی پالیسی سازوں کے لیے اہم سوال ہوگا۔‘

پاک پیک نے اس مہم کے ذریعے پاکستان کی گورننس اور معیشت کو درپیش مسائل بھی اجاگر کیے جن میں توانائی بحران سمیت عدلیہ اور میڈیا جیسے اداروں پر کیا جانے والا جبر شامل ہے، جب کہ یو ایس ایڈ پروگرام کی افادیت پر بھی بات کی گئی۔

اگرچہ پاکستان کے حالات پر پاکستانی نژاد امریکی کارکنان تیزی سے کام کر رہے ہیں، تاہم امریکی خارجہ پالیسی کی وجہ سے ان کا اثر و رسوخ محدود ہے۔

اگرچہ اس طرح کی کوششوں نے پاکستان میں جمہوری مسائل کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے، تاہم اٹلانٹک کونسل کے شجاع نواز جیسے ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ پاکستان کے اسٹریٹجک محل وقوع یا آبادی کے حجم پر مبنی اپیلیں اب کافی نہیں ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو واشنگٹن میں اپنی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لیے مالی اور سیاسی خود کفالت پیدا کرنی ہوگی۔

لابنگ مہم نے پاکستانی امریکیوں کی قانون سازوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کو اجاگر کیا، جو پاکستان کے لیے امریکی پالیسی کی تشکیل میں فعال رہنے کے ارادے کا اشارہ ہے۔

تاہم ان کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ وہ اپنے خدشات کو امریکا کی بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاسی ترجیحات کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ کرتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025