• KHI: Zuhr 12:46pm Asr 4:51pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 4:14pm
  • ISB: Zuhr 12:22pm Asr 4:16pm
  • KHI: Zuhr 12:46pm Asr 4:51pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 4:14pm
  • ISB: Zuhr 12:22pm Asr 4:16pm

کیا عرب ممالک ٹرمپ کے غزہ منصوبے کا متبادل پیش کر پائیں گے؟

شائع February 17, 2025

چند عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کی شدید مخالفت اور مزاحمت کی ہے جس کے تحت 20 لاکھ فلسطینیوں کو ان کی زمین سے جبری بےدخل کرنا اور ’صفائی کرکے غزہ کو مشرقِ وسطیٰ کا سیاحتی مقام‘ بنانا مقصود ہے، مگر مخالفت کے باوجود یہ ہفتہ ہمیں بتائے گا کہ یہ عرب ممالک واقعی کوئی حقیقی اقدامات لیں گے یا ان کے بیانات محض لفاظی ثابت ہوں گے۔

27 فروری کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں متوقع عرب سربراہی اجلاس سے قبل رواں ہفتے جمعرات کو میزبان سعودی عرب کی قیادت میں قطر، مصر، اردن اور متحدہ عرب امارات، ’عرب منصوبے‘ پر بات چیت کریں گے جس کا مقصد فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بےدخل کیے بغیر غزہ میں بحالیِ امن اور اس کی تعمیر نو ہوگا۔

متحدہ عرب امارات کے امریکا میں تعینات سفیر یوسف العتیبہ نے گزشتہ ہفتے بدھ کو دبئی میں بیان دیا کہ وہ ٹرمپ کے منصوبے کا ’کوئی متبادل نہیں‘ دیکھتے ہیں۔ ان کے اس بیان نے عرب دنیا کے مؤقف کے حوالے سے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ ان شکوک و شبہات کو اس حقیقت نے تقویت دی ہے کہ متحدہ عرب امارات جو اسلامی تعاون تنظیم کے اہم عرب اراکین میں شامل ہے، ابراہم معاہدے کے بعد سے اسرائیل کا اہم شراکت دار بن کر سامنے آیا ہے۔ اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات ایسا ملک ہے جہاں اسرائیلی فوج (آئی ڈی ایف) کے سپاہی آرام کی غرض سے جاتے ہیں کیونکہ یہاں انہیں اپنے جرائم پر قانونی چارہ جوئی کا خوف نہیں ہوتا۔

وہ حلقے جو عرب اور دیگر مسلم ممالک کے حقیقی مؤقف کے حوالے سے ابہام کا شکار ہیں، وہ اپنے خدشات کی متعدد وجوہات بتاتے ہیں۔ سب سے پہلے تو اسرائیل کی غزہ میں قتل و غارت کے خلاف سخت بیانات دینے کے باوجود بہت سے مسلم ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے کاروباری تعلق کو برقرار رکھا۔

ایک جانب جہاں اسرائیل نے غزہ میں وحشیانہ لاک ڈاؤن لگایا اور محصور فلسطینیوں تک انتہائی محدود امداد کی فراہمی کی اجازت دی، وہیں اسرائیلی دعووں کے مطابق متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور اردن نے خلیجی بندرگاہوں سے اسرائیل کو زمینی سپلائی کے راستوں پر کسی قسم کی کوئی پابندیاں عائد نہیں کیں۔ تاہم اردن اسرائیلی دعوے کو مسترد کرتا ہے۔

ترکیہ نے بھی غزہ منصوبے پر سخت تنقید کی ہے لیکن اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ آذربائیجان سے جارجیا اور ترک بندرگاہ جیہان سے باکو-تبلیسی-جیہان پائپ لائن کے ذریعے اسرائیل تک تیل کی ترسیل کا سلسلہ جاری رہا جو اسرائیل کی 30 فیصد تیل کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اس ترسیل کا اسرائیل کی جارحانہ فوجی مہم کے دوران اہم کردار رہا۔

رجب طیب اردوان کی حکومت نے شام میں اپنی پراکسی ’حیات التحریر‘ کی الاسد حکومت کا تخت الٹنے میں بھی سہولت کاری کی جس نے اسرائیل کو گولان ہائٹس کی اضافی زمین پر قبضہ کرنے کا موقع فراہم کیا جس میں اہم کوہِ حرمون بھی شامل ہے جہاں سے اسرائیل، حزب اللہ کا گڑھ سمجھے جانے والے جنوبی لبنان اور وادی بیکا جبکہ اس کے شمال مشرق میں دمشق کی بھی نگرانی کرسکتا ہے۔

مذکورہ مثالوں کے باوجود، یہ سچ ہے کہ سعودی عرب (جو تقریباً تمام عرب اور خلیجی ممالک کی طرح اخوان المسلمین اور حماس جیسی اسلامی انتہا پسند تنظیموں کو جمود اور ان کے راج کو خطرے کے طور پر دیکھتا ہے) نے ابراہم معاہدے میں شمولیت سے قبل مسلسل اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے دو ریاستی حل پر عمل درآمد پر زور دیا ہے۔

اس کے علاوہ غزہ جنگ کے بعد سے ترکیہ کی اسرائیل کو سالانہ 7 ارب ڈالرز کی تجارت، اس کے نصف سے بھی کم ہوچکی ہے۔ ترک تجارتی اور صنعتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ بقیہ تجارت حکومت کی جانب سے نہیں کی جارہی کیونکہ حکومت تمام معاہدوں پر پابندی لگا چکی ہے بلکہ یہ تجارت ترکیہ میں غیر ملکی کمپنیوں اور نسل پرست ریاست کے درمیان باہمی معاہدوں کی وجہ سے ہورہی ہے۔

اگرچہ ان حقائق پر غور کرنا ضروری ہے مگر یہ بھی اہم ہے کہ ہم ان مضبوط وجوہات کا بھی جائزہ لیں جن کی بنیاد پر عرب ریاستیں فلسطینیوں کی جبری بےدخلی کی مخالفت کر رہی ہیں۔

مصر نے دو وجوہات کی بنا پر فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بےدخل کرنے کی سخت مخالفت کی ہے۔ پہلے تو اس اقدام سے ان اسلامی انتہاپسند گروہوں کی پوزیشن مضبوط ہوسکتی ہے جن کے خلاف مصر کی موجودہ اور پیشرو حکومتوں نے مزاحمت کی ہے۔ نقل مکانی کرکے آنے والے فلسطینیوں میں حماس کے جنگجو بھی شامل ہوسکتے ہیں جو شاید اخوان المسلمین کے اقتدار میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے جنہیں صدر عبدالفتاح السیسی کی حکومت نے سخت کارروائیوں سے پسپا کیا ہے۔

مصر کو یہ خوف بھی لاحق ہے کہ مستقبل میں اگر فلسطینی مزاحمت کاروں نے قابض علاقوں میں پُرتشدد کارروائیاں کیں تو اس عمل سے اسرائیل کی جوابی کارروائیوں کی زد میں مصر بھی آسکتا ہے جس سے نیا تنازع کھڑا ہوسکتا ہے۔ ایسا کوئی بھی امر ڈیوس معاہدے کی خلاف ورزی ہوسکتا ہے جو 1978ء میں امریکا کی ثالثی میں مصر اور اسرائیل کے درمیان طے پایا تھا۔

اس حوالے سے اردن کی پوزیشن زیادہ نازک ہے جس کی ایک کروڑ 10 لاکھ کی مجموعی آبادی کا 35 فیصد فلسطینیوں پر مشتمل ہے۔ ان کی بڑی تعداد غزہ میں نسل کشی، مغربی کنارے پر آباد کاری اور فلسطینی اتھارٹی کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں اسرائیلی دراندازی کو لے کر سخت برہم ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کی ایک اور بڑی جماعت ایک ایسے ملک میں بدامنی کو جنم دے سکتی ہے جو پہلے ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔

سعودی حکومت، میڈیا، عوامی شخصیات اور ماہرین کی جانب سے ملکی اور غیرملکی میڈیا کو دیے جانے والے بیانات حوصلہ افزا ہیں۔ ان کا ایک ہی پیغام ہے، اسرائیل کے ساتھ کسی بھی طرح کے تعلقات کے قیام سے قبل دو ریاستی حل پر عمل درآمد شرط ہے۔ کنگ سعود یونیورسٹی سے وابستہ سعودی ماہرِ تعلیم مطلق المطیری نے کہا ہے کہ سعودی عرب، عرب منصوبے کی حمایت کرے گا پھر چاہے اس کے لیے سعودی عرب کو مصر اور اردن کو وہ امداد کی تلافی کیوں نہ کرنی پڑے جسے غزہ منصوبہ منظور نہ کرنے پر ٹرمپ نے منقطع کرنے کی دھمکی دی ہے۔

امریکی صدر مذاکرات شروع کرنے اور ڈیل کرنے کے لیے سخت اور مطلق العنان مؤقف اختیار کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ وہ انتہائی غیرمتوقع شخصیت کے مالک ہیں۔ تاہم ایک چیز جو یقینی ہے وہ یہ ہے کہ فلسطینی اپنی آزادی اور اپنی زمین کی بقا کی جنگ جاری رکھیں گے جیسا کہ ہم نے گھروں کے ملبے جن کے نیچے ان کے پیارے مدفون ہیں، پر بیٹھے فلسطینیوں سے سنا کہ وہ اپنی زمین سے دستبردار نہیں ہوں گے۔

مصر کے خبر رساں ادارے ڈیلی نیوز کے مطابق مصری ریئل اسٹیٹ ٹائیکون ہشام طلعت مصطفیٰ نے ٹرمپ کے منصوبے کے متبادل کے طور پر تعمیر نو کے لیے 27 ارب ڈالرز کے منصوبے کی تجویز دی ہے۔ انہوں نے امریکی صدر کے منصوبے کو ’منطق سے عاری اور ناقابلِ عمل‘ قرار دیا۔ اس کے بجائے ہشام طلعت کی تجویز کے مطابق فلسطینیوں کی نقل مکانی کے بغیر غزہ کی تعمیر نو کی جائے گی۔

ایم بی سی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ہشام طلعت مصطفیٰ نے تین سال کے عرصے میں غزہ میں 2 لاکھ گھروں کی تعمیر مکمل کرنے کا وژن پیش کیا۔ انہوں نے 40 سے 50 تعمیراتی کمپنیوں کے وسائل کو استعمال کرنے اور 13 لاکھ رہائشیوں کو چھت فراہم کرنے کے لیے 20 ارب ڈالرز مختص کرنے کی تجویز دی۔ ان کے مطابق مزید 4 ارب ڈالرز انفرااسٹرکچر اور 3 ارب ڈالرز تعلیمی، صحت عامہ کی سہولیات اور تجارتی خدمات میں لگائے جائیں گے۔

کیا ہشام طلعت کا منصوبہ اس نئے مصری منصوبے کا حصہ ہے جس کا مصری اہلکار ذکر کرتے آرہے ہیں؟ اور کیا عرب رہنما 1919ء میں مصر کی قوم پرست تحریک کے رہنما سعد زغلول کو غلط ثابت کریں گے جنہوں نے ’صفر جمع صفر کیا ہوتا ہے؟‘ کا طنزیہ سوال کرکے عرب اتحاد کے تصور کا مذاق اڑایا تھا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عباس ناصر

عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 20 فروری 2025
کارٹون : 19 فروری 2025