شاعر آکاش انصاری کو لے پالک بیٹے نے قتل کیا، پولیس کا دعویٰ
سندھ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ دو روز قبل گھر میں آگ لگنے سے جاں بحق ہونے والے سندھی زبان کے شاعر و لکھاری آکاش انصاری کو ان کے لے پالک بیٹے نے قتل کیا۔
آکاش انصاری کی جھلسی ہوئی لاش 15 فروری کو حیدرآباد میں ان کی رہائش گاہ سے ملی تھی، ابتدائی طور پر بتایا گیا تھا کہ ان کے گھر میں شارٹ سرکٹ سے آگ لگی، جس میں شاعر جھلس کر جاں بحق ہوئے۔
شاعر کے گھر میں آگ لگنے اور اس میں جھلس کر ان کے جاں بحق ہونے پر سندھ بھر کے شاعروں اور ادیبوں نے اظہار تشویش کرتے ہوئے ان کے لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے کا مطالبہ کیا تھا جب کہ پولیس کو تفتیش کا دائرہ بڑھانے کی درخواست بھی کی تھی۔
اب پولیس نے بتایا ہے کہ شاعر کے لے پالک بیٹے شاہ لطیف نے آکاش انصاری کو قتل کرکے ان کی لاش کو جلانے کا اعتراف کرلیا۔
انگریزی اخبار ’ایکسپریس ٹربیون‘ نے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) حیدرآباد فرخ لنجار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ قاتل نے آکاش انصاری کو قتل کرنے کا اعتراف کرلیا۔
پولیس کے مطابق آکاش انصاری کے لے پالک بیٹے کو تحویل میں لے کر تفتیش کی گئی، جس دوران انہوں نے شاعر کو قتل کرنے اور بعد ازاں واقعے کو سانحہ قرار دینے کے لیے ان کی لاش کو جلانے کا اعتراف کرلیا۔
پولیس کے مطابق آکاش انصاری کے بیٹے نشے کے عادی ہیں اور قتل کے وقت بھی انہوں نے نشے کی لت میں آکاش انصاری کو قتل کرکے ان کی لاش کو آگ لگائی۔
پولیس نے بتایا کہ آکاش انصاری کے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آنا ابھی باقی ہے جب کہ واقعے کا تاحال مقدمہ دائر نہیں کیا گیا۔
خیال رہے کہ ڈاکٹر آکاش انصاری دسمبر 1956 میں ضلع بدین کے نواحی گاؤں میں پیدا ہوئے، ان کا اصل نام اللہ بخش تھا، تاہم انہوں نے شاعرانہ نام آکاش رکھا۔
ڈاکٹر آکاش انصاری کی شاعری کی دو کتابوں ’ادھورا ادھورا‘ اور ’کیسے رہوں جلا وطن‘ کا شمار سندھی ادب کی مشہور کتابوں میں ہوتا ہے، ان کے تراجم انگریزی سمیت دوسری زبانوں میں بھی ہوئے۔
ڈاکٹر آکاش انصاری کو مزاحمتی شاعری لکھنے پر شہرت حاصل رہی، انہوں نے ضیا الحق کے دور میں بھی مزاحمتی شاعری لکھی جب کہ وہ ہمیشہ وقت کے حکمرانوں کے خلاف مزاحمتی شاعری کرتے رہے۔
ڈاکٹر آکاش انصاری نے مزاحمتی شاعری میں عدالتی اور نظام انصاف کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جب کہ ان کے رومانوی گانے بھی متعدد فنکاروں نے گائے اور ان کے گانے ہر دور میں پسند کیے گئے۔