سرکاری اداروں کو 851 ارب روپے کا نقصان، مجموعی قرضے 9 کھرب روپے سے تجاوز کر گئے
وزارت خزانہ نے مالی سال 24-2023 کے دوران سرکاری اداروں (ایس او ایز) کے مجموعی نقصانات 851 ارب روپے اور ان کے مجموعی قرضے 9 کھرب 20 ارب روپے ہونے کی اطلاع دی ہے، جو ایف بی آر کے محصولات کے تقریباً برابر ہے اور سنجیدہ مالیاتی خطرات کی نشان دہی کرتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پروگرام کے تحت مالی سال 24 کے لیے وفاقی ایس او ایز کی مجموعی سالانہ رپورٹ میں وزارت خزانہ نے کہا کہ پاکستان ساورن ویلتھ فنڈ (پی ایس ڈبلیو ایف) میں رکھے گئے کچھ اداروں کے منافع کا حساب کتاب کرنے کے بعد مجموعی خسارہ 521 ارب 50 کروڑ روپے تک پہنچ گیا۔
یہاں تک کہ منافع بخش اداروں کے پاس بھی کم سے کم مفت نقد بہاؤ ریکارڈ کیا گیا، کیونکہ ان کے فنڈز خسارے میں چلنے والی کمپنیوں کے ساتھ پھنس گئے تھے۔
بجلی کے شعبے کی کمپنیاں مجموعی طور پر اس فہرست میں سب سے اوپر ہیں جن سے عوام کے پیسے اور معیشت کو نقصان پہنچا ہے، حالانکہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) نے سب سے زیادہ 295 ارب 50 کروڑ روپے کا نقصان رپورٹ کیا ہے، ان اداروں نے مجموعی طور پر تقریباً 2 کھرب 50 ارب روپے کی معاشی قدر کو نقصان پہنچایا۔
مالی سال 24 میں ایس او ایز کی مجموعی آمدنی 5.26 فیصد اضافے کے ساتھ 13.5 کھرب روپے تک پہنچ گئی، جب کہ مجموعی خالص نقصانات میں تقریباً 89 فیصد یا 30 ارب 65 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا، تاہم حکومت کی جانب سے سبسڈیز اور گرانٹس وغیرہ کے ذریعے ان کے مجموعی نقصانات میں 14 فیصد کمی کی گئی۔
مجموعی منافع 820 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا جو سال بہ سال 14.61 فیصد اضافہ ہے، جب کہ خسارے میں چلنے والے ایس او ایز نے مجموعی طور پر 851 ارب روپے کے نقصانات برداشت کیے، جو 14.03 فیصد کمی ہے۔
ان نقصانات میں سبسڈی کی مد میں 782 ارب روپے کی حکومتی امداد اور محصولات میں 367 ارب روپے کی گرانٹ شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ایس ڈبلیو ایف کے اداروں کو ہٹانے سے منافع کمانے والے اداروں کو نقصان پہنچانے کے بعد، مجموعی طور پر 521 ارب 50 کروڑ روپے کا نقصان دیکھا گیا۔
ایس او ایز کے اثاثوں کی بک ویلیو، سال بہ سال 6.37 ارب روپے اضافے سے 38 کھرب 34 ارب روپے سے زائد، جب کہ واجبات 6.7 فیصد اضافے سے 32 کھرب 57 ارب روپے تک پہنچ گئے، جس کے نتیجے میں خالص ایکویٹی 4.47 فیصد اضافے کے ساتھ صرف 5.863 کھرب روپے رہی۔
کم فری کیش فلو اور کیپیٹل کی اوسط لاگت (ڈبلیو اے سی سی) 17 فیصد سے 22 فیصد تک ہونے کی وجہ سے ایکویٹی پر کم ریٹرن (آر او ای) منفی 0.5 فیصد اور ریٹرن آن انویسٹمنٹ کیپیٹل (آر او آئی سی) 3.4 فیصد رہا۔
ایس او ای پورٹ فولیو کی اکنامک ویلیو ایڈڈ (ای وی اے) منفی 2 کھرب 50 ارب روپے رہی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آر او آئی سی بمقابلہ ڈبلیو اے سی سی کا پھیلاؤ منفی ہے اور حقیقی قدر کھو گئی ہے۔
مالیاتی منافع (6.2 گنا) اور آپریٹنگ منافع (10.6 گنا) میں اضافے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اثاثہ جات بیٹا نے 7.92 فیصد کے سالانہ اثاثوں کے اتار چڑھاؤ میں حصہ ڈالا۔
یہ عوامل بہتر نقد بہاؤ کے انتظام، خطرے کو کم کرنے، اور آپریشنل کارکردگی میں بہتری کی ضرورت کی نشاندہی کرتے ہیں، رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اکاؤنٹنگ منافع کو لیکویڈیٹی میں تبدیل کرنے کا چیلنج ان ایس او ایز کے لیے اہم ہے۔
مالی سال 24 کے دوران سب سے زیادہ نقصان این ایچ اے کو 295 ارب 50 کروڑ روپے، کیسکو 120 ارب 40 کروڑ روپے، پیسکو 88 ارب 70 کروڑ روپے، پی آئی اے 73 ارب 50 کروڑ روپے، پاکستان ریلوے 51 ارب 30 کروڑ روپے، سیپکو 37 ارب روپے، لیسکو 34 ارب 50 کروڑ روپے، پاکستان اسٹیل 31 ارب 10 کروڑ روپے، ہیسکو 22 ارب 10 کروڑ روپے، جینکو ٹو 17 ارب 60 کروڑ روپے، آئیسکو کو 15 ارب 80 کروڑ روپے، گیسکو کو 15 ارب 80 کروڑ روپے، گیپکو کو 15 ارب 80 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مجموعی خسارہ 5 کھرب 74 ارب روپے سے زائد ہے، جس میں سے زیادہ تر صرف گزشتہ 10 سال میں ہوا ہے۔
منافع کمانے والے ایس او ایز
آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) 208 ارب روپے کے ساتھ پہلے، پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) 115 ارب 40 کروڑ روپے کے ساتھ دوسرے اور نیشنل پاور پارکس 76 ارب 80 کروڑ روپے کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔
گورنمنٹ ہولڈنگ پرائیوٹ لمیٹڈ (جی ایچ پی ایل) کا منافع 69 ارب 10 کروڑ روپے، پاک عرب ریفائنری کمپنی 55 ارب روپے، پورٹ قاسم اتھارٹی (پی کیو اے) 41 ارب روپے، میپکو 31 ارب 80 کروڑ روپے، نیشنل بینک 27 ارب 40 کروڑ روپے اور واپڈا کا منافع 22 ارب 20 کروڑ روپے رہا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کے پی ٹی کا منافع 20 ارب 30 کروڑ روپے، پی این ایس سی کا 20 ارب 10 کروڑ روپے، پی ایس او کا 19 ارب 60 کروڑ روپے اور اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کا منافع 18 ارب 30 کروڑ روپے رہا۔
ان نقصانات کو پورا کرنے کے لیے وفاقی حکومت نے مجموعی طور پر ایک ارب 58 کروڑ روپے کی مالی معاونت فراہم کی جس میں 367 ارب روپے کی گرانٹ، 782 ارب روپے سبسڈی، 336 ارب روپے قرضے اور 99 ارب روپے ایکویٹی انجکشن کی مد میں شامل ہیں، یہ وفاقی بجٹ کی وصولیوں کا 13 فیصد تھا جو وفاقی ترقیاتی پروگرام سے نمایاں طور پر زیادہ تھا۔
پی آئی اے کی نجکاری اولین ترجیح
بدھ کو جاری ہونے والے ایک دوسرے بیان میں وزارت اقتصادی امور نے کہا کہ پی آئی اے سمیت ایس او ایز کی نجکاری اس کی اولین ترجیح ہے۔
ڈان اخبار میں 18 فروری کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے جواب میں وزارت خزانہ نے کہا کہ اس ہفتے کے اوائل میں عالمی بینک کے وفد کے ساتھ ملاقات میں حکومت نے نجکاری کے حوالے سے مرحلہ وار نقطہ نظر پیش کیا تھا، اور اس عمل کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے کے بارے میں وفد سے بصیرت طلب کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے، جب کہ ڈسکوز کی مرحلہ وار نجکاری ایس او ایز کے اصلاحاتی ایجنڈے کا لازمی حصہ ہے جس میں پاور سیکٹر کی تنظیم نو بھی شامل ہے۔
حکومت نجکاری کے پورے عمل میں شفافیت اور مناسب عمل کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ دورے پر آنے والے وفود نے اصلاحات کے لیے حکومت کے عزم اور اہم چیلنجز سے نمٹنے میں قابل ذکر پیش رفت کو سراہا، اور پاکستان کے نئے کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کی حمایت کا اظہار کیا۔