چیمپیئنز ٹرافی: ’کیا یہی وہ آغاز تھا جس کی مہینوں سے تیاری ہورہی تھی؟‘
ہوم گراؤنڈ پر مسلسل تیسری شکست نے نیوزی لینڈ ٹیم کو پاکستان کے لیے ڈراؤنا خواب بنا دیا ہے۔ ان سے جب بھی سامنا ہوتا ہے، شکست منہ کھولے کھڑی نظر آتی ہے۔ شکستوں کا یہ سلسلہ پہلے تو کبھی ایسا نہ تھا۔
چیمپیئنز ٹرافی کے پہلے ہی میچ میں پاکستان ٹیم کی شرمناک شکست نے ان تمام دعووں کی نفی کردی ہے جو گزشتہ کئی ماہ سے کوچ عاقب جاوید اور کپتان محمد رضوان کررہے تھے۔ ویسے تو دونوں کے مزاج اور عادات میں بہت فرق ہے۔عاقب کرکٹ کو کرکٹ کی نظر سے جبکہ رضوان کرکٹ کو قسمت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
چیمپیئنز ٹرافی کا ٹورنامنٹ جیسے جیسے قریب آرہا تھا تو پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے لیے پریشانیاں بڑھتی جارہی تھیں۔ ایک جانب شب وروز محنت کرنے والے محسن نقوی، اپنی روایتی رفتار دکھاتے ہوئے کراچی اور لاہور کے میدانوں کو جدید ترین اسٹیڈیمز میں تبدیل کررہے تھے تو دوسری جانب نادیدہ قوتیں چیمپیئنز ٹرافی کا انعقاد مشکل بنارہی تھیں۔ بھارت کا آنے سے انکار اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی سرد مہری اس ایونٹ کو بربادی کی طرف لے جارہی تھی۔ آئی سی سی کا بھارت کے معاملے پر خاموشی اختیار کرنا، نیم رضامندی تھی۔
بھانت بھانت کے ٹی وی اینکرز اور تبصرہ نگار دن رات اس ایونٹ کو پاکستان سے باہر جاتا دیکھ رہے تھے لیکن صرف ایک ایسا عمل تھا جو اس نازک صورت حال میں تسلی دے رہا تھا اور وہ تھا قومی کرکٹ ٹیم کا طویل عرصے کے بعد ایک روزہ کرکٹ میں پھر سے جنم لینا۔ آسٹریلیا کو اس کے ملک میں اور جنوبی افریقہ کو اس کے گھر میں گھس کر اس طرح شکست دی کہ وہ کسی کا سامنا نہ کرسکیں۔ یہ جدت طراز کرکٹ کے ایک نئے دور کا ارتقا تھا۔
جب گزشتہ نومبر چیمپیئنز ٹرافی سے قبل سہ ملکی سیریز کا اعلان ہوا تو سب نے اسے معمولی سی سیریز سمجھا اور زیادہ تر نے اسے محض ہنگام عشق سے پہلے محبت کے کچھ انداز جانا۔ سب نے آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں فتوحات پر قومی ٹیم کو ہمالیہ سمجھ لیا حالانکہ حقیقت تو یہ تھی کہ دونوں ٹیمیں اپنے بہترین کھلاڑیوں کے بغیر کھیل رہے تھیں اور ہم اسے تاریخی جیت سمجھ رہے تھے۔
مگر مسلسل شکستوں نے مجبور کردیا ہے کہ ٹیم کے اصل مسئلے پر توجہ دی جائے جوکہ گیم پلان کی ناکامی اور غلط سیلیکشن ہے۔ اوپنرز نہ ہونے کے مسئلے کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے عارضی اوپنرز بنانے کی ترکیب نے ٹیم کو 80 کی دہائی میں واپس پہنچا دیا ہے۔ کل بابر اعظم کی بیٹنگ نے 80 کی دہائی کی یاد تازہ کردی ہے جب سُست انداز کی کرکٹ کھیلی جاتی تھی اور رن ریٹ پر توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ 80 گیندوں میں نصف سنچری سے آپ ذاتی اسکور تو بنا سکتے ہیں لیکن جیت کے ہدف تک نہیں پہنچ سکتے۔ ایسی اننگز نے ٹیم کو ایک ایسے خول میں بند کردیا ہے جہاں سے تنزلی کا سفر اور تیز ہوجاتا ہے۔
ٹیم کے کھلاڑیوں کی جسمانی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہلکی سی چوٹ بھی زہر ہلاہل بن جاتی ہے۔ فخر زمان نیوزی لینڈ کے خلاف جس طرح زخمی ہوئے وہ اتنی مشکل فیلڈنگ نہیں تھی لیکن اب وہ بھارت کے خلاف اہم ترین میچ بلکہ پورے ٹورنامنٹ سے ہی باہر ہوچکے ہیں جبکہ نیوزی لینڈ کے خلاف ان کی بلے بازی بھی کام نہ آسکی۔
زبردستی کے اوپنر سعود شکیل کے لیے بہت مشکل تھا کہ وہ پاور پلے کا درست استعمال کرسکیں۔ 10 اوورز میں 22 رنز پر آپ کس طرح جیت کی امید کرسکتے ہیں جبکہ فی اوور 6 رنز درکار تھے۔
بیٹنگ میں افراتفری اور غلط شاٹ سیلیکشن نے ایک بات تو واضح کردی ہے کہ کمزور ٹیموں کے خلاف بلندو بالا شاٹ کھیلنے والے جب ماہر باؤلرز کے سامنے آتے ہیں تو بھیگی بلی بن جاتے ہیں رضوان سے لے کر خوشدل شاہ تک، کسی کھلاڑی کے پاس نہ گیم پلان ہے اور نہ بیٹنگ کے انداز میں تبدیلی کی صلاحیت!
بیٹنگ کے لیے کراچی کی پچ اتنی زیادہ موزوں نہیں تھی اور نیوزی لینڈ کو ابتدا میں مشکل پیش آرہی تھی۔ دوہرا باؤنس اور گیند کا ٹرن بیٹنگ مشکل بنارہا تھا لیکن پاکستانی اسپنرز اس کے درست استعمال میں ناکام رہے۔ ابرار احمد کو اس پچ پر زیادہ فلپر کرنا چاہیے تھے لیکن وہ فنگر اسپن کرتے رہے جس پر ان کا لینتھ کبھی بھی صحیح نہیں ہوتا۔ حارث رؤف واضح طور پر تھکے ہوئے نظر آرہے تھے۔ آخری اسپیل بدترین اور مہنگا ترین تھا۔ شاہین شاہ آفریدی باؤلنگ کو تو اب سب ہی سمجھ چکے ہیں جو پیروں کے قریب باؤلنگ کرتے ہیں اور رنز کھاتے ہیں۔
نیوزی لینڈ سے 10 دن میں تین شکستوں نے سب کو حیران کردیا ہے۔ ایک ہی ٹیم کے ایک ہی انداز کو مسلسل دیکھ کر بھی عاقب جاوید کی منصوبہ بندی بالائے فہم ہے۔ پہلے میچ میں جہاں غلطی ہوئی وہی آخری میچ تک برقرار رہی۔ اننگز کے آخری اوورز میں کبھی گلین فلپس اور کبھی ٹام لیتھم کی بیٹنگ نے ہمیں مقابلے سے مکمل باہر پھینک دیا۔ رضوان باؤلنگ اور فیلڈنگ کا کوئی ہوم ورک نہ کرسکے جبکہ ان کے برعکس کیویز نے زبردست ہوم ورک کیا اور شاہین آفریدی اور نسیم شاہ کے زہریلے ڈنک پہلے اسپیل میں ہی نکال دیے جس سے وہ آخری اسپیل تک مضمحل ہوچکے تھے۔
ایسا لگتا ہے کہ اسٹیڈیم کو خوبصورت جدید اور قابلِ دید بناتے بناتے پی سی بی کرکٹ ٹیم کو بھول گیا جو زبوں حالی کا شکار ہے۔ آپس کے جھگڑوں، غلط سیلیکشن کے فیصلے اور کسی گیم پلان کے بغیر میدان میں چلے جانے کو اگر کرکٹ میں ترقی کہیں تو دنیا ہم پر ہنسے گی۔ ہر ٹیم اس چیمپیئنز ٹرافی میں مستند اوپنرز کے ساتھ کھیل رہی ہے جبکہ پاکستان میک شفٹ اوپنرز کے ساتھ اور وہ بھی وہ ہیں جو مڈل آرڈر میں جدوجہد کررہے تھے۔
بابر اعظم جس انداز میں خراب کارکردگی سے پریشان تھے شاید اب مطمئن ہوں کہ ان کے پاس طنز کے تیروں کا جواب ہے کہ میری اصل بیٹنگ پوزیشن مجھ سے چھین لی گئی ہے۔
بدترین کارکردگی اور وہ بھی ہوم پچ پر، اس کے بعد دبئی میں بھارت کے خلاف کسی بڑی اور فتح گر کارکردگی دیوانے کا خواب ہوسکتی ہے جہاں بھارت ہاتھ میں تیر وتبر لیے انتظار کررہا ہے۔ اس کی بیٹنگ انتہائی متوازن اور بھرپور ہے جبکہ باؤلنگ تازہ دم اور تیز طرار ہے۔ اگرچہ جسپریت بمراہ نہیں ہیں لیکن ہمارے پاس بھی فخر زمان نہیں ہیں۔ بھارت کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک بلے باز ہیں جو اپنی اپنی بیٹنگ پوزیشن پر مستحکم ہے جبکہ ہمارے پاس کچھ بلے باز زخمی اور کچھ پریشان ہیں۔
دبئی کے گراؤنڈ سے پاکستان کی ایک ہی خوشگوار یاد وابستہ ہے۔ 2021ء کے ورلڈ کپ میں اسی میدان میں بھارت کو پاکستان نے یک طرفہ شکست دی تھی لیکن وہ ٹی ٹوئنٹی میچ تھا اور اب اتوار کو 50 اوورز کا میچ کھیلا جائے گا جس کے لیے ہم کتنے تیار ہیں اور کیا کرسکتے ہیں، وہ تو سب ہی دیکھ چکے ہیں۔ ڈوبتی ہوئی ناؤ کے لیے ساحل کا کنارا دور نظر آرہا ہے اور طوفان کے بھنور میں ٹیم کی کشتی ڈول رہی ہے۔ کشتی کے نا خدا بھی پریشان ہیں۔
ایک طرف حالیہ شکستیں دوسری طرف نامکمل ٹیم اور پھر بلے بازوں کی ناکامی نے محمد رضوان کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کردی ہیں۔ دبئی کا میچ فیصلہ کرے گا کہ پاکستان آگے جائے گا یا پھر گھر واپس لوٹے گا۔ اگرچہ تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو ہمیں کسی بھی آئی سی سی ٹورنامنٹ کی میزبانی راس نہیں آئی ہے لیکن کاش اس بار ایسا نہ ہو!
لکھاری جرمن نشریاتی ادارے سے منسلک ہیں، مختلف ٹی وی چینلز پر کرکٹ پر تبصروں کے لیے بطور مبصر شرکت کرتے ہیں اور کھیلوں پر ان کے تجزیے مختلف اشاعتی اداروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر Syedhaider512@ پر فالو کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔