پابندی کے ایک سال بعد بھی ’ایکس‘ کا استعمال سرکاری محکموں تک محدود
پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر پابندی کا ایک سال مکمل ہونے پر حکومتی حکام نے عندیہ دیا ہے کہ یہ سروس جلد بحال ہونے کا امکان نہیں ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومتی محکمے عام لوگوں پر پابندی کے باوجود سرکاری مواصلات کے لیے (بظاہر ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) کے ذریعے) ممنوعہ پلیٹ فارم کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم، جسے پاکستان میں تقریباً 45 لاکھ افراد استعمال کرتے تھے، کو فروری 2024 میں عام انتخابات کے تقریباً 10 دن بعد نگراں حکومت کے دور میں ہی بلاک کر دیا گیا تھا۔
اس وقت صارفین نے انتخابات میں مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر دھاندلی کے دعوے ایکس پر شیئر کیے تھے جبکہ راولپنڈی کے سابق کمشنر لیاقت چٹھہ کی پریس کانفرنس آخری جھٹکا ثابت ہوئی تھی جس میں انہوں نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا اور سابق چیف جسٹس پر دھاندلی میں سہولت کاری کا الزام عائد کیا تھا۔
پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے ڈان کو بتایا کہ ایک سال بعد بھی ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے کہ حکومت ’ایکس‘ پر پابندی اٹھانے پر غور کر رہی ہے۔
انہوں نے اپوزیشن جماعت کی سوشل میڈیا ٹیم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ایکس پر پابندی کا خاتمہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ’کی بورڈ واریئرز‘ کے سوشل میڈیا پر پارٹی کے خلاف ہونے والے حملے کو کنٹرول کرنے سے مشروط ہے‘۔
ڈان نے وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بحالی کے لیے کوئی عارضی ٹائم فریم دینے سے بھی انکار کر دیا۔ تاہم عطا اللہ تارڑ کی اپنی وزارت اور مختلف سرکاری محکموں جیسے وزیر اعظم آفس، وزارت خارجہ وغیرہ میں ان کے ہم منصب کالعدم پلیٹ فارم پر سرکاری بیانات پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔
اس سے قبل پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کہا تھا کہ اگر سوشل میڈیا کے قواعد و ضوابط بنائے گئے تو حکومت ایکس کو بحال کرنے پر غور کر سکتی ہے۔
جمعرات کو جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت ترمیم شدہ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے تحت نئے سوشل میڈیا قوانین کی تشکیل کے بعد ایکس پر پابندی اٹھانے پر غور کر رہی ہے تو انہوں نے ڈان کو بتایا کہ یہ معاملہ وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہے، تاہم اگر سوشل میڈیا کے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد شروع ہو جائے تو اس طرح کے مسائل حل ہو جائیں گے۔
دریں اثنا سول سوسائٹی کی تنظیموں، انسانی حقوق کے علمبرداروں، صحافیوں اور عام شہریوں کی جانب سے ایک مشترکہ بیان میں ایکس کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا گیا ہے اور حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ مستقبل میں اس طرح کے من مانے اقدامات سے گریز کرے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ پابندی آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے اور پاکستان کے بین الاقوامی قوانین کے وعدوں کو کمزور کرتی ہے۔
پابندی کی داستان
ایکس پر پابندی کے ہفتوں بعد بھی حکومت اور ٹیلی کام ریگولیٹر، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے بار بار اس بات کی تردید کی تھی کہ پلیٹ فارم کو بند کیا گیا ہے۔
پابندیوں کے بارے میں پہلا اعتراف مارچ میں کیا گیا جب وزارت داخلہ نے سندھ ہائی کورٹ کو آگاہ کیا کہ ایکس کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹس پر بلاک کیا گیا ہے۔
اپریل میں وزارت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ ایکس نے اپنے پلیٹ فارم کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے حکومت کی ہدایات پر عمل نہیں کیا۔
یہ پابندی ’قومی سلامتی اور امن عامہ کو برقرار رکھنے اور ملکی سالمیت کے تحفظ کے مفاد میں عائد کی گئی تھی۔
حکومت نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ایکس نے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور آرمی چیف کے خلاف توہین آمیز مہم میں ملوث اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کی ایف آئی اے کی درخواستوں کا ’مناسب جواب‘ نہیں دیا۔
ایک سال تک جاری رہنے والی معطلی کے دوران ایکس انتظامیہ نے صرف ایک بار عوامی سطح پر کوئی تبصرہ کیا، جب اس نے کہا کہ وہ پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا جاری رکھے گا۔