خیبر پختونخوا میں پانی کا تحفظ اور دریاؤں کی آلودگی ۔ مسائل، اثرات اور حل
پانی زمین پر زندگی کے تسلسل کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان، خاص طور پر خیبر پختونخوا، میں پانی کی دستیابی اور اس کا دانشمندانہ استعمال نہ صرف ماحول کے توازن بلکہ معیشت، زراعت اور عوامی صحت کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔ مگر پانی کے غیر محتاط استعمال، آلودگی اور موسمیاتی تغیرات کے باعث یہ بیش قیمت وسیلہ خطرات سے دوچار ہے۔
موثر حکمت عملی کے تحت پانی کا تحفظ کیا جا سکتا ہے۔
بارش کا پانی قدرت کا عطا کردہ ایک قیمتی تحفہ ہے، جسے ذخیرہ کرکے ہم زیرِ زمین پانی کی سطح کو بلند کر سکتے ہیں۔ بارش کا پانی محفوظ کرنے والے سسٹمز، ذخائر اور چیک ڈیمز کے ذریعے پانی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
زراعت میں پانی کے ضیاع کو کم کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی جیسے کہ ڈرپ ایریگیشن ور اسپرنکلر سسٹم کا استعمال ضروری ہے۔ اس سے کم پانی میں زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے اور پانی کے غیر ضروری ضیاع کو روکا جا سکتا ہے۔
پانی کے تحفظ کے لیے عوامی آگاہی ناگزیر ہے۔ تعلیمی اداروں میں پانی کی بچت کے حوالے سے مہمات چلانا، میڈیا کے ذریعے معلومات فراہم کرنا اور سوشل میڈیا کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنا مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔
گھروں، دفاتر اور صنعتوں میں پانی کے غیر ضروری استعمال کو روکنے کے لیے قوانین سخت کیے جائیں اور پانی کی لیکیج کی بروقت مرمت کی جائے۔

درخت اور جنگلات بارش کے پانی کو زمین میں جذب کرکے پانی کے ذخائر کو بھرنے میں مدد دیتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں مزید بلین ٹری سونامی جیسے منصوبے متعارف کرانے کی ضرورت ہے تاکہ پانی کے قدرتی ذخائر محفوظ رہیں۔
دریاؤں کی آلودگی: وجوہات، اثرات اور سدباب
خیبر پختونخوا کے دریاؤں میں آلودگی ایک سنگین ماحولیاتی اور صحت عامہ کا مسئلہ بن چکی ہے۔
آلودگی کی وجوہات
فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والا کیمیکل اور فضلہ دریاؤں میں شامل ہو کر پانی کو زہریلا بناتا ہے۔
شہری اور دیہی علاقوں کا گندہ پانی اور کوڑا کرکٹ بغیر کسی فلٹریشن کے دریاؤں میں شامل کر دیا جاتا ہے، جو آلودگی کا باعث بنتا ہے۔
کھیتوں میں استعمال ہونے والے زرعی کیمیکلز اور کیمیائی کھادیں بارش کے ذریعے بہہ کر دریاؤں میں شامل ہو جاتی ہیں، جو آبی حیات کے لیے زہر ثابت ہوتی ہیں۔
پلاسٹک کی تھیلیاں، بوتلیں اور دیگر غیر نامیاتی اشیاء پانی میں شامل ہو کر نہ صرف پانی کو آلودہ کرتی ہیں بلکہ سمندری اور آبی حیات کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں۔
آلودگی کے اثرات
جب دریائی پانی آلودہ ہوتا ہے تو پینے کے صاف پانی کی قلت پیدا ہوتی ہے، جس سے صحت عامہ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
آلودہ پانی مچھلیوں اور دیگر آبی جانداروں کے لیے مہلک ثابت ہوتا ہے، جس سے ماحولیاتی توازن بگڑ جاتا ہے۔

دریاؤں کا آلودہ پانی پینے سے ہیضہ، ٹائیفائیڈ، جِلدی بیماریاں اور دیگر مہلک بیماریاں پھیلنے کا خدشہ برقرار رہتا ہے۔
دریاؤں میں موجود آلودگی زمین کی زرخیزی کو کم کر دیتی ہے اور جنگلی حیات کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔
دریاؤں کی آلودگی کا حل
حکومت کو چاہیے کہ صنعتی فضلے کو براہ راست دریاؤں میں پھینکنے پر مزید سختی کی جائے اور واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کا قیام لازمی قرار دیا جائے۔
گھریلو گندے پانی اور کچرے کے لیے بائیوڈیگریڈیبل نظام متعارف کرایا جائے اور اس کے مؤثر انتظام کے لیے مضبوط پالیسیاں تشکیل دی جائیں۔
کسانوں کو ماحول دوست کھادوں اور زرعی ادویات کے استعمال کی تربیت فراہم کی جائے تاکہ کیمیکل سے ہونے والی آلودگی کو کم کیا جا سکے۔
پلاسٹک بیگز اور دیگر نان بائیوڈیگریڈیبل اشیاء پر سخت پابندی لگائی جائے اور ان کے متبادل ماحول دوست مصنوعات کو فروغ دیا جائے۔
مقامی لوگوں کو دریاؤں کی صفائی مہمات میں شامل کیا جائے اور میڈیا، تعلیمی اداروں اور مذہبی رہنماؤں کے ذریعے عوام کو اس مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے۔
خیبر پختونخوا کی ترقی، ماحولیاتی استحکام اور صحت عامہ کے لیے آبی وسائل کا تحفظ اور دریاؤں کی صفائی انتہائی ضروری ہے۔ یہ محض حکومتی ذمہ داری نہیں بلکہ عوام، صنعتی شعبے، کسانوں اور مقامی اداروں کا بھی فرض ہے کہ وہ اس مقصد کے لیے عملی اقدامات کریں۔ اگر آج ہم نے سنجیدگی نہ دکھائی تو آنے والے دنوں میں پانی کا بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے۔
تحریر: ابرار احمد