زیلنسکی اور ٹرمپ میں ’جھڑپ‘، یوکرین اور امریکا میں معدنیات کا معاہدہ نہ ہوسکا
یوکرین کے صدر اور امریکی ہم منصب کے درمیان جمعہ کے روز متعدد بار زبانی جھڑپیں ہوئیں، ولادیمیر زیلنسکی نے ٹرمپ پر زور دیا کہ وہ روس کے ساتھ مل کر ان پر ’توہین آمیز‘ ہونے کا الزام لگانے میں احتیاط کریں۔
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق دونوں رہنماؤں نے ایک تقریب سے قبل اوول آفس میں ملاقات کی، توقع کی جارہی تھی کہ وہ یوکرین کی معدنیات کی صنعت میں امریکی شرکت کے معاہدے پر دستخط کریں گے، لیکن زیلنسکی نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے بارے میں ٹرمپ کے نرم رویے پر ٹرمپ کو کھلے عام چیلنج کیا اور جلد اٹھ کر چلے گئے۔
وائٹ ہاؤس کے عہدیدار نے بتایا کہ اوول آفس کے متنازع اجلاس کے بعد یوکرین کے صدر جلد روانہ ہو رہے ہیں۔
’ٹروتھ سوشل‘ پر ایک پوسٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’اگر امریکا جنگ بندی کروانے میں شامل ہو رہا ہے تو ایسے میں زیلنسکی امن کے لیے تیار نہیں ہیں، زیلنسکی سمجھتے ہیں کہ امریکا کی شمولیت سے ہم فائدہ اٹھائیں گے، لیکن میں فائدہ نہیں چاہتا، امن چاہتا ہوں۔‘
انہوں نے اوول آفس میں ریاست ہائے متحدہ امریکا کی توہین کی، ٹرمپ نے تلخ کلامی کے بعد لکھا کہ وہ اس وقت واپس آسکتے ہیں جب وہ امن کے لیے تیار ہوں۔
ہڈسن انسٹی ٹیوٹ اور ڈی سی میں یوکرین ہاؤس میں زیلنسکی کی مجوزہ پیشی بھی بعد میں منسوخ کردی گئی۔
قبل ازیں اوول آفس میں ہونے والی بات چیت کے دوران زیلنسکی نے ٹرمپ کے اس دعوے کو مسترد کر دیا تھا کہ جنگ کی وجہ سے یوکرین کے شہر ملبے میں تبدیل ہو گئے ہیں، ٹرمپ نے ایک موقع پر زیلنسکی سے کہا تھا کہ ’آپ تیسری جنگ عظیم کا جوا کھیل رہے ہیں۔‘
نائب امریکی صدر جے ڈی وینس نے کہا کہ اوول آفس میں آکر خود کو بڑا بناکر پیش کرنا امریکا کی توہین ہے، جس سے ٹرمپ نے اتفاق کیا، لوگ مر رہے ہیں، ٹرمپ نے زیلنسکی سے کہا کہ آپ فوجیوں کی تعداد کم کر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے زیلنسکی سے کہا کہ انہیں معاہدہ کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ امریکا اس معاملے سے نکل جائے گا۔
توقع کی جا رہی تھی کہ دونوں رہنما بعد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کریں گے، جہاں انہیں ایک معاہدے پر دستخط کرنے تھے، لیکن یوکرین کے رہنما جلدی چلے گئے۔
حالیہ دنوں میں طے پانے والے معاہدے سے یوکرین کی وسیع معدنی دولت امریکا کے لیے کھل جائے گی، لیکن اس میں یوکرین کے لیے واضح امریکی سیکیورٹی کی گارنٹی شامل نہیں ہے، ٹرمپ کا کہنا ہے کہ کاروبار میں امریکیوں کی موجودگی ضمانت کی ایک شکل کے طور پر کام کرے گی۔
زیلنسکی نے کہا کہ وہ کسی ایسے معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے جس سے ان کا ملک نسلوں تک مقروض رہے۔
روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زخارووا نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں نعرے بازی کے دوران زیلنسکی کو نہ مار کر ’تحمل‘ کا مظاہرہ کیا، انہوں نے ٹیلی گرام پر لکھا کہ ’ٹرمپ اور وینس جس طرح اس اسکومبگ کو نشانہ بنانے سے باز رہے، یہ تحمل کا معجزہ ہے۔‘
دوسری جانب جب ٹرمپ نے مذاکرات کے دوران یورپی سلامتی کے حوالے سے بہت کم پرعزم موقف اپنایا تو لہجے میں تبدیلی نے پورے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا۔
جرمنی کی وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے کہا کہ ’جرمنی اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ مل کر یوکرین کے شانہ بشانہ اور روسی جارحیت کے خلاف متحد ہے۔‘
یوکرین میں ’یورپی سربراہ اجلاس‘ کل طلب
دریں اثنا برطانوی وزیر اعظم کے دفتر نے یورپی رہنماؤں کو یوکرین اور سلامتی کے بارے میں اقدامات کو آگے بڑھانے کے لیے اتوار کے اجلاس میں مدعو کیا ہے۔
سربراہ اجلاس سے قبل کیئر اسٹارمر ڈاؤننگ اسٹریٹ میں زیلنسکی کے ساتھ جنگ پر تبادلہ خیال کرنے سے قبل بالٹک ممالک کے ساتھ صبح کی کال کی صدارت کریں گے۔
برطانوی دفتر خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم اس اجلاس کو یوکرین کے معاملے پر یورپی اقدامات کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کریں گے، جو ایک منصفانہ اور پائیدار امن اور پائیدار معاہدے کے حصول کے لیے اجتماعی غیر متزلزل حمایت کا اشارہ ہے، جو یوکرین کی مستقبل کی خودمختاری اور سلامتی کو یقینی بنائے گا۔