ایم این ایز کی تنخواہوں میں اضافے کے بعد پیسے بچانے کیلئے قومی اسمبلی کے 220 ملازمین برطرف
قومی اسمبلی نے اخراجات کم کرنے کے لیے 200 سے زائد ملازمین کو فارغ کر دیا ہے، سرکاری دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ نے اپنی تنخواہوں میں تقریباً 300 فیصد تک اضافہ کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پارلیمانی سال کے اختتام پر شائع ہونے والی اپنی سالانہ رپورٹ میں قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے کہا ہے کہ سالانہ ایک ارب روپے کی بچت کے لیے رائٹ سائزنگ کے 2 مراحل کے دوران 220 ملازمین کو برطرف کیا گیا۔
اسپیکر سردار ایاز صادق کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی نے سیکریٹریٹ کے آپریشنز کو بہتر بنانے کے لیے متعدد پالیسی اقدامات کی منظوری دی ہے۔
پہلے 2 مرحلوں میں گریڈ 1 سے 19 کے غیر ضروری عہدوں کو ختم کردیا گیا، جس سے اسمبلی کے اخراجات میں 56 کروڑ 30 لاکھ روپے سے زیادہ کی کمی ہوئی۔
اصلاحات کا تیسرا مرحلہ شروع کیا جا رہا ہے، تاکہ ہر سال ایک ارب روپے کی بچت کی جا سکے۔
پہلے مرحلے میں 90 غیر ضروری عہدوں کو ختم کیا گیا، جس سے ہر سال 25 کروڑ 58 لاکھ 40 ہزار روپے کی بچت ہوگی۔
دوسرے مرحلے میں 130 عہدوں کو ختم کیا گیا، جس سے اخراجات میں 3 کروڑ 75 لاکھ روپے کی بچت ہوگی۔
رپورٹ میں ایم این ایز کے معاوضوں میں حالیہ اضافے کا ذکر نہیں کیا گیا، جن کی بنیادی تنخواہ ایک لاکھ 80 ہزار سے بڑھا کر 5 لاکھ 19 ہزار روپے کردی گئی۔
یہ بھی واضح نہیں ہے کہ ایم این ایز کی تنخواہوں میں اضافہ رائٹ سائزنگ سے متوقع بچت کو کس طرح پورا کرے گا۔
تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ برطرفیاں قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے آپریشنز کو ہموار بنانے اور اس کے مالی استحکام کو یقینی بنانے کی وسیع تر کوششوں کا حصہ ہیں۔
ریکارڈ قانون سازی
رپورٹ میں 16 ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال میں منظور کیے گئے قوانین کی ریکارڈ تعداد کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایوان نے 40 سرکاری بلوں اور 11 نجی ممبروں کے بلوں کو منظور کرکے قانون سازی میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 36 سرکاری بل اور 6 نجی اراکین کے بل جو ایم این ایز کی جانب سے پیش کیے گئے تھے، جو حکومت کا حصہ نہیں تھے، ایکٹ بن گئے۔
تاہم پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کی جانب سے رواں ہفتے کے اوائل میں شائع ہونے والے ایک تجزیے میں کہا گیا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر قوانین ایم این ایز کی جانب سے نظر ثانی کیے بغیر اور متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھیجے بغیر جلد بازی میں منظور کیے گئے۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے اپنی رپورٹ میں 25-2024 کے بجٹ پر روشنی ڈالی، جسے قومی اسمبلی نے ’تفصیلی بحث اور ارکان قومی اسمبلی کی جانب سے تجویز کردہ ترامیم کو شامل کرنے کے بعد‘ منظور کیا تھا۔
تاہم پلڈاٹ نے گزشتہ سال اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ حکومت نے حزب اختلاف کے ارکان کی جانب سے پیش کردہ فنانس بل 2024 میں تمام ترامیم کو مسترد کردیا ہے۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کا بل قانون سازی کے سالوں میں سب سے قابل ذکر سنگ میل میں سے ایک ہے اور اس کا مقصد عدالتی اصلاحات اور پارلیمانی بالادستی کو مضبوط بنانا ہے۔
رپورٹ میں جن دیگر اہم قوانین کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ڈیجیٹل نیشن پاکستان ایکٹ 2025، سائبر سیکیورٹی اور ڈیجیٹل کرائم ریگولیشنز کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام (ترمیمی) ایکٹ 2025 شامل ہیں۔
ان قانون سازی کی کامیابیوں کے علاوہ، قومی اسمبلی نے اپنے انتظامی افعال کی کارکردگی اور احتساب کو بہتر بنانے میں خاطر خواہ پیش رفت کی۔
اسپیکر ایاز صادق کی ہدایت پر پارلیمنٹ ہاؤس کے افعال کو ڈیجیٹائز کرنے کی کوششیں شروع کردی گئی ہیں۔ اسپیکر کے دورے
رپورٹ میں پارلیمانی تعاون کو بڑھانے کے لیے گزشتہ سال کے دوران ایاز صادق کے غیر ملکی دوروں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
ان میں 148 ویں بین الپارلیمانی یونین میں شرکت کے لیے جنیوا کا دورہ بھی شامل تھا، اسپیکر نے منسک، بیلاروس، روس اور ہنگری کے ورے بھی کیے ۔
ان دوروں کے دوران اسپیکر نے عالمی ترقی میں جمہوریت، امن اور قانون کی حکمرانی کے کردار پر زور دیا، انہوں نے پرامن مذاکرات کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا اور بین الاقوامی تعاون کو مستحکم کرنے میں پارلیمانی فرینڈشپ گروپس کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
ایاز صادق نے غزہ میں تشدد پر گہری تشویش کا اظہار کیا، اور اسرائیل کے اقدامات کو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیا۔
اکتوبر 2024 میں پارلیمنٹیرینز کے 45 ویں سالانہ فورم نے 46 سے زائد غیر ملکی پارلیمنٹیرینز کو پاکستان لایا۔
اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت ہونے والی اس تقریب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، صاف پانی تک رسائی اور تنازعات کے حل سمیت عالمی چیلنجز سے نمٹنے میں پارلیمنٹیرینز کے اہم کردار پر زور دیا گیا۔
گزشتہ سال پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنے والی دیگر قابل ذکر شخصیات میں مسجد نبوی کے امام شیخ ڈاکٹر صلاح محمد البدیر اور معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک شامل تھے۔
پاکستان نے قانون سازی کے مسودے پر پہلی کامن ویلتھ ویمن پارلیمنٹیرینز (سی ڈبلیو پی) ورکشاپ کی بھی میزبانی کی، جس میں دولت مشترکہ کی خواتین قانون سازوں نے شرکت کی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس تقریب نے صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کو فروغ دینے والے قوانین کو بڑھانے کے لیے بہترین طریقوں، قانونی فریم ورک اور حکمت عملی وں پر تبادلہ خیال کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کیا۔