• KHI: Asr 4:57pm Maghrib 6:36pm
  • LHR: Asr 4:22pm Maghrib 6:03pm
  • ISB: Asr 4:25pm Maghrib 6:07pm
  • KHI: Asr 4:57pm Maghrib 6:36pm
  • LHR: Asr 4:22pm Maghrib 6:03pm
  • ISB: Asr 4:25pm Maghrib 6:07pm

’تیسری جنگ عظیم کے ساتھ جوا کھیلنا‘ کیسا ہے؟

شائع 04 مارچ 2025 01:43pm

اس موضوع پر کافی مضبوط مؤقف اور مختلف آرا ہیں، لہٰذا اہم بات پر آنے سے پہلے کچھ وضاحتیں کرنا ضروری ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ناخوشگوار تلخ کلامی نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کی لیکن میں یہاں چھوٹی سی بات کرنا چاہوں گا۔

لفظوں کی اس جھڑپ سے مجھے ایک پرانی چینی کہاوت یاد آگئی جو کچھ یوں ہے کہ ’اگر دشمن غلطی کررہا ہو تو اسے مت ٹوکو‘۔ تو ذرا اس بارے میں سوچیے کہ اگر اپنے گھر امریکا میں ٹرمپ کے متنازع اقدامات سے عالمی جاسوسی نیٹ ورک ’فائیو آئیز‘ (جس میں امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں) کمزور ہورہا ہے تو کیا یہ باقی دنیا کے لیے باعثِ راحت نہیں ہونا چاہیے؟

کچھ لوگ شاید اس موضوع پر ایڈورڈ اسنوڈن کے نقطہ نظر کو یاد کریں۔ فائیو آئیز انٹیلی جنس اتحاد کے بارے میں انہوں نے ہی انکشافات کیے تھے کہ امریکا اور اس کے اتحادی اپنے شہریوں کی جاسوسی کرتے ہیں اور ان کی معلومات کا اشتراک کرتے ہیں۔

عالمی سفارت کاری کے نتاظر میں دیکھا جائے تو اگر یوکرین جنگ کے حوالے سے ٹرمپ کے اقدامات سے مزید انسانی جانوں کا ضیاع نہیں ہوتا اور یورپی استعماری طاقتوں کے درمیان پرانا فوجی اتحاد بھی کمزور ہوجاتا ہے تو دنیا کو اس پیش رفت پر خوش ہونا چاہیے یا پریشان؟

اس موضوع پر نظر رکھنے والے کچھ حلقوں کے نزدیک ولادیمیر پیوٹن امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ زیلنسکی انہیں دہشتگرد قرار دے چکے ہیں۔ یوکرینی آئین انہیں پیوٹن سے کسی طرح کی کوئی بات چیت نہ کرنے کا پابند بناتا ہے۔ تاہم صورت حال پر بحث کرکے ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے، نہ ہی مسائل حل ہوسکیں گے۔ درحقیقت جمعے کے روز اوول آفس میں کی گئی ایک اہم بات کو نظرانداز کردیا گیا کیونکہ تمام افراد زیلنسکی، ان کے میزبان ٹرمپ اور پیوٹن کے درمیان انتخاب کرنے میں مصروف ہیں۔

وہ اہم نکتہ ٹرمپ کا زیلنسکی کو یہ کہہ کر دروازہ دکھانا تھا کہ ’آپ تیسری جنگِ عظیم کے ساتھ جوا کھیل رہے ہیں‘۔ یہ یاد کرنا مشکل ہے کہ ایک وحشیانہ جنگ میں اپنے اتحادی کا ساتھ دینے والے کسی امریکی صدر کو یہ اعتراف کرتے ہوئے سنا گیا ہو کہ یہ تنازع ممکنہ طور پر جوہری جنگ میں تبدیل ہوسکتا ہے۔

بعض حلقے ٹرمپ کو امریکا، اس کی جمہوریت وغیرہ کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں اور ان کی تنقید بجا بھی ہے۔ لیکن جس وقت یہ تنقید کی جارہی ہے اس ٹائمنگ کی وجہ سے اہم مسئلہ نظرانداز ہورہا ہے۔ اسے اداکار جیک نیکلسن نے فلم ’ایز گڈ ایز اٹ گیٹس‘ میں اپنے ڈائیلاگ میں بہترین انداز میں بیان کیا جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے، ’میں یہاں ڈوب رہا ہوں اور تم مجھے بتا رہے ہو کہ پانی کیسا ہے‘۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک اور نکتہ پیش کیا جس نے زیلنسکی کو سوچ میں مبتلا کیا۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین-روس جنگ کبھی ہونی ہی نہیں چاہیے تھی۔ یہ ان لوگوں کے درمیان جنگ ہے جو ایک دوسرے کے قریب ہیں، بالکل اسی طرح جیسے افغان کو حیلے بہانوں سے ایک دوسرے سے لڑنے کے لیے اُکسایا گیا اور پھر جب سامراجی طاقتوں کی اس جنگ میں دلچسپی ختم ہوگئی تو انہیں اسی حالت میں چھوڑ دیا گیا۔ ہم نے ویتنام میں بھی تقریباً یہی کچھ دیکھا تھا جہاں بھائیوں کو ایک دوسرے کے خلاف کیا گیا۔

عراق جنگ بھی اسی طرح شروع کی گئی جس طرح یوکرین تنازع پیدا کیا گیا۔ حکمت عملی ایک ہی تھی کہ ہدف کو تباہ کن جنگ میں دھکیلا جائے اور پھر انہیں نتائج بھگتنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا جائے۔ سابق امریکی سفیر اپریل گلاسپی نے جو سالوں پہلے صدام حسین کے ساتھ کیا، وہی یوکرین میں امریکی سفیر وکٹوریا نولینڈ نے زیلنسکی کے ساتھ کیا۔ ان دونوں عالمی رہنماؤں کو وحشیانہ جنگوں میں دھکیلا گیا جس کے نتائج ان کے لیے تباہ کُن ثابت ہوئے۔

حالیہ جنگ سے پہلے روسی اور یوکرینی دونوں خود کو ایک بڑی سلاوی فیملی کا حصہ سمجھتے تھے۔ ان کی تاریخ بالخصوص ایڈولف ہٹلر کو شکست دینے کے معاملے میں ایک جیسی تھی۔ مگر یہ الگ بات ہے کہ یوکرین میں نازی کے ہمدرد موجود رہے ہیں۔ روسی اور یوکرینی دونوں قوموں کے گرجا گھر بھی ایک ہی تھے اور ان میں ثقافت حتیٰ کہ کھانے بھی مشترک تھے۔

ستم ظریفی تو یہ کہ طاقتور سوویت یونین رہنماؤں کا تعلق بھی یوکرین سے تھا۔ سابق وزیراعظم نکیتا خروشچیف، کمیونسٹ پارٹی کے سابق جنرل سیکریٹریز لیونڈ برشچیف اور کونستانتن چرنینکو کی پیدائش یوکرین میں ہوئی یا وہ یہیں پلے بڑھے۔

ڈونلڈ ٹرمپ، زیلنسکی کو کیوں خبردار کررہے تھے کہ اگر یوکرین نے روس کو بیرونی ہتھیاروں سے اکسانے کا سلسلہ جاری رکھا تو جوہری تباہی آسکتی ہے؟ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ وہ محض زیلنسکی کو متنبہ نہیں کررہے تھے بلکہ اپنے تمام یورپی اتحادیوں کو بتا رہے تھے کہ اس بےمعنی تنازع کے تباہ کُن نتائج مرتب ہوں گے۔ اب جب روس اور امریکا جنگی تعطل کے حوالے سے ایک صفحے پر موجود ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ تباہی کا محرک کون ہوسکتا ہے؟

محرکات تو بہت ہیں، صرف مشرقِ وسطیٰ نہیں بلکہ بحیرہ جنوبی چین بھی ایک غیرمستحکم خطہ ہے۔ لیکن روس کا مشہور کھیل ’رولیٹ‘ جس میں دو فریق باری باری ایک دوسرے کی کنپٹی پر بندوق تان کر گولی چلاتے ہیں، لندن میں کھیلا جارہا ہے جہاں وہی پرانے کھلاڑی ہیں۔

ایک نیا اتحاد وجود میں آیا ہے۔ کیئر اسٹارمر اور ایمانوئل میکرون جو دونوں ہی اپنے ممالک میں کم ہوتی مقبولیت کا سامنا کررہے ہیں، یوکرین میں فوجی امداد بھیجنے کے لیے زور دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایسا اس لیے کررہے ہیں کہ اگر جنگ بندی ہوتی ہے تو اس صورت میں زیلنسکی کی پوزیشن مستحکم ہونی چاہیے۔ معتبر مبصرین اسے پیوٹن کے لیے خطرناک اقدام قرار دیتے ہیں۔ روس نے یوکرین پر اس لیے حملہ کیا تھا کیونکہ وہ اپنی سرحدوں پر نیٹو کی موجودگی نہیں چاہتا تھا۔ یورپی ممالک جانتے ہیں کہ ولادیمیر پیوٹن کبھی بھی انہیں اپنے ہمسایے کے طور پر قبول نہیں کریں گے۔

ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت صدارت میں تاثر دیا ہے کہ مغرب بالخصوص نیٹو نے دانستہ طور پر پیوٹن کو اکسایا۔ برطانیہ اس بات پر زور دیتا آیا ہے کہ روس کی جیت یورپ کے لیے خطرے کا باعث بنے گی۔ کیا اس دعوے میں حقائق بھی شامل ہیں؟ یا ان کا یہ مؤقف محض برطانیہ کی روسوفوبیا (روس سے نفرت) کی طویل تاریخ کی وجہ سے ہے؟

ونسٹن چرچل کی ’آئرن کرٹین‘ تقریر اور جیمز بانڈ کے عروج کے ساتھ روسوفوبیا مضبوط ہوا ہے۔ جو بائیڈن کے دورِ اقتدار میں یہی کہا جاتا تھا کہ روس جنگ ہار چکا ہے لیکن ٹرمپ نے اس دعویٰ کو مسترد کیا اور کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہونے جارہا۔ اس کے بجائے ٹرمپ اپنی نظریں یوکرین کے معدنیاتی ذخائر پر گاڑ چکے ہیں۔

ٹرمپ ممکنہ طور پر جانتے ہیں کہ یوکرین کی جنگ کو کچھ حلقے شام کو ختم کرنے کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے پر ہلیری کلنٹن کے پیوٹن کے خلاف انتقام کے طور پر بھی دیکھتے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح انہوں نے انٹونی بلنکن کے ساتھ لیبیا کو سنبھالا تھا۔

ٹرمپ کے اندر موجود کاروباری شخص غیرضروری طور پر خطرات موہ لینے سے ہچکچاتا ہے۔ وہ اس وقت لرز اٹھے ہوں گے کہ جب گزشتہ ماہ انہیں اطلاع ملی ہوگی کہ واشنگٹن ایئرپورٹ کے قریب ایک ملٹری ہیلی کاپٹر، کمرشل جہاز سے ٹکرا گیا ہے۔ ہیلی کاپٹر ایک فرضی جوہری حملے کے دوران صدر کے انخلا کی فرضی مشق کا حصہ تھا۔

اسے مزید پُراسرار بنانے کے لیے اینی جیکبسن کی بصیرت سے بھرپور کتاب ’نیوکلیئر وار‘ کا حوالہ دیتے ہیں جس میں مصنفہ نے جوہری جنگ چھڑ جانے پر ایک تخیلاتی دنیا تشکیل دی ہے۔ اس کتاب میں یہ فرضی خیال بھی شامل ہے کہ ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں امریکی صدر بھی زخمی ہوجاتے ہیں جنہیں ریسکیو کرکے سیف ہاؤس منتقل کیا جاتا ہے لیکن انہیں بہت سے فریکچرز آتے ہیں جبکہ ان کی مدد کرنے کے لیے کوئی بھی زندہ نہیں بچتا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 4 مارچ 2025
کارٹون : 3 مارچ 2025