عورت مارچ کے منتظمین کا اجازت نہ ملنے پر بھی ڈی چوک تک ریلی نکالنے کا اعلان
وفاقی دارالحکومت میں عورت مارچ کے منتظمین نے کہا ہے کہ وہ انتظامیہ سے باضابطہ اجازت نہ ملنے کے باوجود اپنے مجوزہ پروگرام کو آگے بڑھائیں گے، اور آج نیشنل پریس کلب سے ڈی چوک تک ریلی نکالی جائے گی۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری نے بتایا کہ ہم گزشتہ سالوں کی طرح نیشنل پریس کلب (این پی سی) کے باہر مظاہرہ کریں گے، اور (خواتین کے عالمی دن کے موقع پر) ڈی چوک کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کریں گے۔
مارچ کے اہم منتظمین میں سے ایک ڈاکٹر فرزانہ باری نے کہا کہ انہوں نے کئی ماہ قبل اسلام آباد انتظامیہ کو ایک باضابطہ درخواست جمع کرائی تھی، جس میں این پی سی سے ڈی چوک تک مارچ کرنے کی اجازت مانگی گئی تھی، لیکن اب تک اس پروگرام کے لیے این او سی نہیں ملا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مارچ کے منتظمین نے وزیر اعظم شہباز شریف کو بھی خط لکھا ہے، جس میں ان سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اسلام آباد انتظامیہ کو پروگرام کے لیے این او سی جاری کرنے کی ہدایت کریں۔
ڈاکٹر فرزانہ باری نے کہا کہ اجازت دینے کے بجائے انتظامیہ رمضان کے مقدس مہینے کے پیش نظر تقریب کو ملتوی کرنے کے لیے کہہ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ منتظمین نے پہلے ہی فیصلہ کیا ہے کہ اس مقدس مہینے کے تقدس کا احترام کرنے کے لیے تقریب کو سادگی کے ساتھ، بغیر کسی موسیقی یا دیگر دھوم دھام کے مکمل کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے لیے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ وہ اس دن کو منانے کے اپنے حق سے دستبردار ہوجائیں، جو سال میں صرف ایک بار آتا ہے۔
فرزانہ باریﷺ نے کہا کہ شرکا کو دوپہر ایک بجے پریس کلب کے سامنے جمع ہونے کی کال دے رکھی ہے، اور شام 4 بجے کے قریب ڈی چوک کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کریں گے۔
انسٹاگرام پر پوسٹ کیے گئے اپنے کھلے خط میں مارچ کے منتظمین نے وزیر اعظم کو آگاہ کیا کہ گزشتہ 6 سال سے این او سی حاصل کرنے کی ان گنت کوششوں کے باوجود انہیں ’تحفظ اور احتجاج کے حق سے محروم رکھا گیا ہے‘۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ماضی میں ہمارے منتظمین کو مذہبی بنیاد پرست گروہوں، پولیس اور اسلام آباد انتظامیہ کے ہاتھوں بربریت کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس سے پاکستان میں خواتین کے حقوق کی صورتحال کے بارے میں بین الاقوامی برادری کو بہت منفی پیغام گیا ہے۔