حکومت کی گردشی قرض کم کرنے کیلئے بینکوں سے 12 کھرب 50 ارب کے پیکیج پر بات چیت
وفاقی وزیر توانائی اور بینکنگ ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ حکومت توانائی کے شعبے کے بڑھتے ہوئے قرضوں کو کم کرنے کے لیے کمرشل بینکوں کے ساتھ 12 کھرب 50 ارب روپے (4 ارب 47 کروڑ ڈالر) کے قرضے پر بات چیت کر رہی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے جاری 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے تحت توانائی کے شعبے میں غیر حل شدہ قرضوں کو دور کرنا اولین ترجیح ہے، جس سے پاکستان کو معاشی بحران سے نکلنے میں مدد ملی ہے۔
وزیر توانائی اویس لغاری نے برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ قرض کی ادائیگی 5 سے 7 سال کی مدت میں کی جائے گی، ٹرم شیٹ پر دستخط ہونا ابھی باقی ہیں۔
زیادہ تر پاور کمپنیوں کی سب سے بڑی شیئر ہولڈر یا مالک حکومت کو مالی مشکلات کی وجہ سے قرضوں کا مسئلہ حل کرنے میں ایک چیلنج کا سامنا ہے، اس سے نمٹنے کے لیے حکومت نے آئی ایم ایف کی سفارش کے مطابق توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کیا، لیکن اب بھی گردشی قرض کو ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے بہت سے بینکوں سے رابطہ کیا ہے، دیکھتے ہیں کہ کتنے حصہ لیتے ہیں، یہ ایک تجارتی لین دین ہے، اور ان کے پاس حصہ لینے کا انتخاب ہے، تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے لیے سسٹم میں لیکویڈیٹی ہے اور بینکوں کی خواہش ہے۔
حکومت اس سال حکومتی گارنٹی والے قرضوں کو ختم کرکے اور محصولات پر مبنی نظام کی طرف منتقل ہو کر گردشی قرضوں کو کم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو سبسڈی اور واجب الادا بلوں کی وجہ سے بجلی کے شعبے میں بڑھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ توقع ہے کہ اس نقطہ نظر سے فنانسنگ اخراجات میں کمی آئے گی، جس سے حکومت کو سود اور ادائیگی کے قرضوں کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں مدد ملے گی۔
وزیر توانائی کے مشیر عمار حبیب خان نے کہا کہ ذمہ داریوں کی اس طرح کی دوبارہ قیمتوں سے زیادہ کارکردگی پیدا ہوتی ہے، اور صارفین کے لیے لاگت کم ہوتی ہے۔
پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کے چیئرمین ظفر مسعود نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ شرح سود فلوٹنگ ایکسچینج ریٹ ہوگا اور ملک کے بڑے بینک اس عمل میں شریک ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے اگلے 4 سے 6 سال میں تمام قرضوں کو ختم کرنے میں مدد ملے گی، جو بینکوں کی بیلنس شیٹ پر موجود ہیں۔
ظفر مسعود نے کہا کہ 12 کھرب 50 ارب کے قرضوں میں سے آدھے سے زیادہ پہلے ہی بینکوں کی کے کھاتوں میں موجود ہیں، اور سیلف لیکوئڈنگ سہولتوں کے ذریعے ری اسٹرکچرنگ سے گزر رہے ہیں، جس میں فی الحال ان کی مدد کے لیے قابل شناخت کیش فلو کی کمی ہے۔