57 رکنی اسلامی تعاون تنظیم نے بھی عربوں کے غزہ منصوبے کی حمایت کر دی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ’غزہ منصوبے‘ کے خلاف عربوں کے منصوبے کی حمایت میں مزید اضافہ ہوگیا، اسلامی ممالک اور یورپی حکومتوں نے بھی عرب منصوبے کی حمایت کر دی۔
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ کے منصوبے کے برعکس، عرب تجویز کا مقصد غزہ کے 24 لاکھ باشندوں کو بے گھر کیے بغیر غزہ کی تعمیر نو کرنا ہے، غزہ کے باشندوں نے 19 جنوری کو نازک جنگ بندی کے نفاذ سے پہلے 15 ماہ سے زیادہ عرصے تک تباہ کن تنازع کا سامنا کیا تھا۔
57 رکنی اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے سعودی عرب کے شہر جدہ میں ایک ہنگامی اجلاس میں اس تجویز کو باضابطہ طور پر منظور کیا، اس سے 3 دن قبل عرب لیگ نے قاہرہ میں ہونے والے ایک اجلاس میں اس کی توثیق کی تھی۔
برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی نے اپنے وزرائے خارجہ کے ایک مشترکہ بیان میں اس کی حمایت کرتے ہوئے اسے جنگ زدہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے ’حقیقت پسندانہ راستہ‘ قرار دیا۔
غزہ کی جلد بحالی اور تعمیر نو کے بارے میں اسلامی بلاک کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ او آئی سی عرب منصوبے کو منظور کرتا ہے، بین الاقوامی برادری، عالمی اور علاقائی فنڈنگ کے ادارے فوری طور پر ضروری مدد فراہم کریں۔
ٹرمپ نے اس وقت عالمی سطح پر برہمی کا اظہار کیا تھا، جب انہوں نے تجویز دی تھی کہ امریکا غزہ پر قبضہ کرے اور اسے ’مشرق وسطیٰ کے ریویرا‘ میں تبدیل کر دے گا، جب کہ اس کے فلسطینی باشندوں کو مصر یا اردن منتقل کرنے پر مجبور کرے گا۔
نسل کشی، جنگی جرائم
پاکستان نے مسلم ممالک پر زور دیا کہ وہ واضح کریں کہ فلسطینی عوام کو جبری طور پر منتقل کرنے کی کوئی بھی کوشش، چاہے وہ غزہ سے ہو یا مغربی کنارے سے، نسلی صفائی اور بین الاقوامی قانون کے تحت جنگی جرم ہے۔
او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ اسلامی بلاک کو ایسی کسی بھی تجویز کو واضح طور پر مسترد کرنا چاہیے، جس میں فلسطینیوں کو ان کے اپنے ملک سے بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی بیرونی طاقت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ فلسطینیوں پر اپنا مستقبل ڈکٹیٹ کرے، انہیں خود ارادیت کی مشق کے ذریعے اپنے مستقبل کا تعین خود کرنا ہوگا، او آئی سی کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کے کسی بھی مذموم ایجنڈے کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔
اسحٰق ڈار نے پاکستان کی فوری سفارشات پیش کیں، جن میں جنگ بندی معاہدے کے 3 مراحل پر مکمل اور فوری عمل درآمد شامل ہے، جس میں جنگ بندی کا مستقل خاتمہ، غزہ سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا، بلا روک ٹوک انسانی رسائی اور تعمیر نو کا جامع منصوبہ شامل ہے۔
مصر کے وزیر خارجہ بدر عبدالاتی نے او آئی سی کی توثیق کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ انہیں اب امریکا سمیت وسیع تر بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل کرنے کی امید ہے۔
عبدالاتی نے کہا کہ اگلا قدم یورپی یونین، جاپان، روس، چین اور دیگر بین الاقوامی قوتوں کی طرف سے اسے اپنانے کے ذریعے ایک بین الاقوامی منصوبہ بنانا ہے، ہم یہی چاہتے ہیں اور ہم امریکی پارٹی سمیت تمام فریقین کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
4 یورپی حکومتوں نے غزہ کو حماس کی تقریباً 2 دہائیوں کی حکمرانی کے بعد مغربی کنارے میں قائم فلسطینی اتھارٹی کے کنٹرول میں واپس لانے کے منصوبے کا خیر مقدم کیا، انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم واضح ہیں کہ حماس کو نہ تو غزہ پر حکومت کرنی چاہیے اور نہ ہی اسرائیل کے لیے خطرہ بننا چاہیے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی سنجیدہ کوششوں کو سراہتے ہیں، عرب ریاستوں کی جانب سے بحالی اور تعمیر نو کے منصوبے کو مشترکہ طور پر تیار کرکے بھیجے گئے اہم اشارے قابل تعریف ہیں۔
تاہم، مصر کی تجویز پر اسرائیل اور امریکا پہلے ہی سرد مہری کا اظہار کر رہے ہیں، امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ یہ منصوبہ واشنگٹن کی توقعات پر پورا نہیں اترتا۔
ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے سفیر اسٹیو وٹکوف نے اس پر زیادہ مثبت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اس منصوبے کو ’مصریوں کی جانب سے نیک نیتی سے اٹھایا گیا پہلا قدم‘ قرار دیا ہے۔