سول جج نے دعا زہرہ کا 2022 میں پنجاب میں ہونیوالا نکاح درست قرار دیدیا
سول جج نے دعا زہرہ کی جانب سے 2022 میں پنجاب میں ہونے والے نکاح (شادی) کو درست قرار دے دیا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق عدالت نے فیصلہ سنایا کہ لڑکی کو شادی ختم کرنے کے لیے متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کی آزادی ہے۔
دعا زہرہ نے 2023 میں لاہور کے رہائشی اپنے مبینہ شوہر ظہیر کے خلاف خاندانی مقدمہ دائر کیا تھا، اور عدالت سے مطالبہ کیا تھا کہ ان پر خوف، دباؤ اور جبر کے نتیجے میں نکاح نامے کو کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ شادی کا سرٹیفکیٹ جعلی تھا، اور اس کی رضامندی کے بغیر بنایا گیا تھا، کیوں کہ اس پر عمل درآمد کے وقت وہ کم عمر تھی۔
انہوں نے مقدمہ زیر التوا ہونے کے دوران مدعا علیہ کو مدعی سے قانونی طور پر شادی کرنے اور اس کے ساتھ شادی کا جائز معاہدہ کرنے کا جھوٹا دعویٰ کرنے سے روکنے کے لیے حکم امتناع کی بھی درخواست کی تھی۔
سول جج اور جوڈیشل مجسٹریٹ (ایسٹ) محمد نعمان جتوئی نے ریکارڈ کا جائزہ لینے اور فریقین کو سننے کے بعد شادی سے متعلق کیس خارج کر دیا۔
عدالت نے حکم دیا کہ فریقین کے درمیان نکاح نامہ درست قرار دیا جاتا ہے، جب کہ مدعا علیہ کو روکنے سے متعلق درخواست خارج کی جاتی ہے، تاہم مدعی کے پاس شادی ختم کرنے کے بارے میں متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کی آزادی ہے۔
دعا زہرہ کے والدین نے اپریل 2022 میں کراچی سے اپنی بیٹی کی گمشدگی کے بعد قانونی جنگ لڑی تھی، سوشل میڈیا پر شدید تنقید اور سندھ ہائی کورٹ کے سخت احکام کے بعد پولیس نے بچی کی بازیابی میں ناکامی پر قائم مقام انسپکٹر جنرل آف پولیس کو بھی گھر بھیج دیا تھا، بعد ازاں عدالت کی ہدایت پر انہیں شہر کے شیلٹر ہوم میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
جنوری 2023 میں سندھ ہائی کورٹ نے لڑکی کو اس کے والدین کے حوالے کیا تھا، اور بعد ازاں فیملی کورٹ نے لڑکی کی تحویل مستقل طور پر ان کے حوالے کرتے ہوئے کہا تھا کہ نابالغ لڑکی کی فلاح و بہبود والدین دیکھیں گے، جب تک کہ وہ بالغ ہونے کی عمر تک پہنچ نہ جائے۔
یاد رہے کہ دعا زہرہ سے شادی کرنے والا ظہیر احمد اپنے رشتہ داروں اور دیگر افراد کے ساتھ پاکستان پینل کوڈ اور سندھ چائلڈ میرج ریسٹرنٹ ایکٹ 2013 کی مختلف دفعات کے تحت سیشن کورٹ میں مقدمے کا سامنا کر رہا ہے۔