چین کو تکنیکی طاقت میں بدلنے، ترقی کا ہدف حاصل کرنے کیلئے اخراجات میں اضافے کا فیصلہ
چین کے رہنماؤں نے گزشتہ ہفتے دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت (چین) کو ابھرتے ہوئے چیلنجز سے نمٹنے کے اپنے منصوبے کا انکشاف کرتے ہوئے ملک کو تکنیکی طاقت میں تبدیل اور ترقی کے پرعزم ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اخراجات میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق بیجنگ میں چین کی مقننہ اور اعلیٰ سیاسی مشاورتی ادارے نیشنل پیپلز کانگریس کے ایک ہفتے تک جاری رہنے والے ’دو اجلاسوں‘ میں شرکت کے لیے جمع ہونے والے ہزاروں مندوبین منگل کو متفقہ طور پر اس منصوبے کی منظوری کے لیے ووٹ دیں گے۔
چینی صدر شی جن پنگ کے لیے ان اقدامات کو درست بنانا ان کے مفاد میں ہے۔
بیجنگ کو بہت سے ملکی مسائل کو حل کرنے کی ضرورت درپیش ہے جن میں رئیل اسٹیٹ بحران، مقامی حکومت کے اعلیٰ قرضے اور صارفین کی کمزور طلب شامل ہیں، جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چینی درآمدات پر محصولات میں اضافے اور چین میں امریکی سرمایہ کاری پر وسیع کنٹرول کی دھمکی کے ساتھ امریکا کی طرف سے بڑھتے ہوئے معاشی دباؤ کا سامنا ہے۔
نئے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ فروری میں چین میں کنزیومر پرائس 13 ماہ میں اپنی کم ترین سطح پر گر گئی، جس سے معیشت پر مسلسل افراط زر کے دباؤ کی نشاندہی ہوتی ہے۔
چینی رہنماؤں نے آنے والے چیلنجزکے بارے میں کھل کر بات کی، یہاں تک کہ انہوں نے چین کے مستقبل پر اعتماد کا اظہار کیا، چین کے وزیر اعظم لی چیانگ نے نیشنل پیپلز کانگریس (این پی سی) کے افتتاح کے موقع پر کہا تھا کہ ملک کی ترقی کا ہدف تقریباً 5 فیصد ہے جو مشکلات سے نمٹنے اور اسے پورا کرنے کے لیے سخت محنت کرنے کے ہمارے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔
چین کا یہ اجتماع زیادہ تر سیاسی تقریبات کے بارے میں ہے، کیونکہ فیصلہ سازی کی حقیقی طاقت چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کے پاس ہے۔
لیکن بیان کردہ ترجیحات اور تقریب کے دوران صدر شی جن پنگ اور ان کے عہدیداروں کی جانب سے بھیجے گئے اشارے اس بات کا ایک اہم موقع فراہم کرتے ہیں کہ بیجنگ کس طرح چین کی مسلسل اقتصادی ترقی اور تکنیکی ترقی کو یقینی بنانا چاہتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب امریکا کے ساتھ اس کے تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشمکش اور غیر یقینی صورتحال ہے۔
مصنوعی ذہانت اور ’مستقبل کی صنعتوں‘ پر توجہ
آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) چین کے اس سال کے اہم ترین اجتماع میں گرما گرم موضوع تھا، ٹیک فرم ’ڈیپ سیک‘ کی بریک آؤٹ کامیابی سے اجلاس میں بہت جوش و خروش دیکھا گیا۔
نجی ملکیت والی چینی کمپنی کے کئی زبانوں کے آپشن والے ماڈل (جو جنوری میں متعارف کرایا گیا تھا) نے سلیکون ویلی کو حیران اور چین کو خوش کر دیا تھا۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ ماڈل اپنے امریکی حریفوں کی صلاحیتوں سے تقریباً مماثلت رکھتا ہے، باوجود اس کے کہ چین کی جانب سے عام طور پر ایسے ماڈلز کی تربیت کے لیے استعمال ہونے والی ہائی پاور اے آئی چپس تک رسائی پر کئی سال سے امریکی پابندیاں عائد ہیں۔
چین کے اقتصادی اداروں نے مصنوعی ذہانت اور دیگر تکنیکی اختراعات کی حمایت کے لیے ریاستی حمایت یافتہ فنڈ کا اعلان کیا، جس کے بارے میں ان کا اندازہ ہے کہ مقامی حکومتوں اور نجی شعبے کی جانب سے 20 سال میں تقریباً دس کھرب یوآن (138 ارب ڈالر) کے سرمائے کو راغب کیا جائے گا۔
چینی حکومت کی ورک رپورٹ، جو تقریباً 30 صفحات پر مشتمل دستاویز ہے، جس میں آنے والے سال کے لیے بیجنگ کے منصوبوں کو بیان کیا گیا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ چین مستقبل کی ابھرتی ہوئی صنعتوں کو فروغ دے، جیسے بائیو مینوفیکچرنگ، کوانٹم ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور 6 جی ٹیکنالوجی۔
اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ چین کو اپنے مقامی ٹیلنٹ کو بڑھانے، تحقیق اور ترقی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
یہ سب شی جن پنگ کے وسیع تر وژن کا حصہ ہے، چین کی صنعتوں کو ہائی ٹیک جدت طرازی کے ساتھ تبدیل کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ سیکیورٹی خدشات پر امریکی ٹیکنالوجیز تک چینی رسائی کو محدود کرنے کی امریکی کوششوں کے سامنے تکنیکی طور پر خود کفیل ہو۔