زیلنسکی نے ٹرمپ کے ساتھ گرما گرمی پر معافی مانگ لی، امریکی نمائندہ خصوصی کا دعویٰ
مشرق وسطیٰ کے لیے امریکا کے نمائندہ خصوصی اسٹیو وٹکوف نے ’فاکس نیوز‘ کو ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ گرما گرم بحث پر معافی مانگ لی ہے۔
دی کیف انڈیپینڈنٹ میگزین کے مطابق وٹکوف اس امریکی وفد کا حصہ ہیں جو آج (11 مارچ کو) سعودی عرب میں یوکرین کے حکام سے ملاقات کرے گا، یہ وفد وائٹ ہاؤس میں جھڑپ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان پہلے اعلیٰ سطح کے مذاکرات میں شریک ہوگا۔
وٹکوف نے انٹرویو میں بتایا کہ زیلنسکی نے امریکی صدر کو ایک خط بھیجا اور اوول آفس میں پیش آنے والے پورے واقعے پر معافی مانگی، مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک اہم قدم تھا۔
وائٹ ہاؤس کے اعلیٰ عہدیداروں نے 28 فروری کو اوول آفس میں ’تصادم‘ کے بعد یوکرین کے صدر زیلنسکی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا، جس کے بعد زیلنسکی نے 4 مارچ کو مصالحتی بیان جاری کیا، اس بیان میں واقعے کو ’افسوس ناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ ٹرمپ کی ’مضبوط قیادت‘ کے تحت امن کے لیے کام کرنے کو تیار ہیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وٹکوف اس بیان کو معافی کے طور پر بیان کر رہے تھے یا زیلنسکی اور ٹرمپ کے درمیان دیگر کسی رابطے کا حوالہ دے رہے تھے۔
اسٹیو وٹکوف نے یہ بھی کہا کہ اس واقعے کے بعد سے یوکرین، امریکا اور یورپی حکام کے درمیان بات چیت جاری ہے اور اس امید کا اظہار کیا کہ سعودی عرب میں مذاکرات واشنگٹن اور کیف کے درمیان تباہ شدہ معدنیات کے معاہدے کو بحال کر سکتے ہیں۔
اسٹیو وٹکوف نے کہا کہ میں اسے ترقی کے طور پر بیان کرنا چاہتا ہوں، مجھے امید ہے کہ کوئی معاہدہ ہو جائے گا، توقع ہے کہ مذاکرات کے دوران دونوں فریق خاطر خواہ پیش رفت کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میز پر جو کچھ ہے جس پر بات کرنا اہم ہے وہ واضح طور پر یوکرین کے لیے سیکیورٹی پروٹوکول ہیں، وہ اس کی پروا کرتے ہیں، یہ پیچیدہ چیزیں نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ سب کچھ میز پر رکھنے، ہر ایک کو اس بارے میں شفاف ہونے کی ضرورت ہے کہ ان کی توقعات کیا ہیں، اس کے بعد ہم اس بارے میں بات چیت کر سکتے ہیں کہ کس طرح ہم سمجھوتے تک پہنچ سکتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس میں جھڑپ کے بعد یوکرین اور امریکا کے تعلقات انتہائی نچلی سطح پر پہنچ گئے تھے، کیونکہ واشنگٹن نے کیف کو فوجی امداد روک دی تھی اور اہم انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ بند کر دیا تھا۔
اسٹیو وٹکوف نے اس سے قبل انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ امریکا نے دفاعی مقاصد کے لیے ضروری انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ بند نہیں کیا ہے۔
فوجی امداد پر پابندی کو ٹرمپ کی اپنی پارٹی کے ارکان کی جانب سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا کہ روس کی جنگ کے دوران یوکرین سے امداد واپس لینا ’افغانستان سے بھی بدتر‘ ہوگا۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ اگر سعودی عرب کے مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو واشنگٹن، یوکرین کو فوجی امداد دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔