شوگرملز کی مکمل مانیٹرنگ کیلئے جدید نظام کو بروئے کار لایا جا رہا ہے، وزیرخزانہ
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ایف بی آر نے شوگر ملز میں مانیٹرنگ نظام قائم کیا ہے، شوگرملزکی مکمل مانیٹرنگ کےلیےجدیدنظام کوبروئےکار لایا جارہا ہے۔
وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ فروری میں ریکارڈ 3.1 ارب ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئی ہیں، سمندر پار پاکستانیوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو ہمارے سفیر اور لائف لائن کا درجہ رکھتے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ مالی سال میں ترسیلات زر بلند ترین سطح پر رہیں گی اور مجموعی طور پر 36 ارب ڈالر موصول ہونی کی توقع ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تمام سرویز کاروبار اور صارفین کے اعتماد میں اضافے کی نشاندہی کررہے ہیں، صنعتی سرگرمیوں میں تیزی بھی اس بات کی نشاندہی کررہی ہے۔
وزیرخزانہ نے بتایا کہ رواں سال شوگر کے کرشنگ سیزن کے آغاز پر ایف بی آر نے چینی کی پیداوار کے حوالے سے ایک جدید مانیٹرنگ سسٹم شروع کیا ہے، جس میں نگرانی کے 5 نظام متعارف کرائے گئے ہیں جن میں ٹریک اینڈ ٹریس اسٹامپس، تھیلوں کی گنتی کیلئے آٹومیٹڈ کاؤنٹرز کی تنصیب، وڈیو ریکارڈنگ اینڈ ڈیجیٹل آئی کاؤنٹنگ اور شوگر ملز کے بیرونی دروازوں پر ایس ٹریک انوائسنگ سسٹم کی تنصیب شامل ہے۔
محمد اورنگزیب نے بتایا کہ شوگر ملز میں انسانی نگرانی کیلئے ایف بی آر کے اہلکار موجود رہتے ہیں تاہم اب شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے اہلکاروں کو شوگر ملز کے درمیان 10 دن کی روٹیشن پر رکھا جائے گا جبکہ ایف آئی اے، آئی بی اور دیگر اداروں کے افسران بھی ان کی معاونت کررہے ہیں۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ اس نظام کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ چینی حقیقی ڈسٹری بیوٹرز کو فروخت کی جارہی ہے اور ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کو کافی حد تک کم کیا گیا ہے، مانیٹرنگ سسٹم کے نفاذ کے بعد 6 شوگر ملز کو سیل کیا جاچکا ہے جبکہ ساڑھے 12 کروڑ روپے کے جرمانے عائد کیے جاچکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ رواں سال کے 2 ماہ میں شوگر ملز سے 24 ارب روپے سیلز ٹیکس جمع ہوا ہے جبکہ گزشتہ سال اسی عرصے میں 15 ارب روپے سیلز ٹیکس جمع ہوا تھا، اس کا مطلب ہے کہ شوگر ملز سے سیلز ٹیکس کی کلیکشن میں 54 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
وزیرخزانہ نے بتایا کہ پہلی مرتبہ چینی افغانستان اسمگل نہیں ہوئی بلکہ برآمد کی گئی ہے جس کا بہت فائدہ ہوا ہے، انہوں کہا کہ رواں سال ملک میں 5.7 ملین ٹن چینی پیدا ہوئی ہے اور اگر گزشتہ سال کے ذخائر کو ملا لیا جائے تو بطور حکومت ہم پراعتماد ہیں کہ یہ مقدار رواں سیزن میں ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہوگی۔