پاکستان اور افغانستان کے جرگے میں طورخم سرحد کھولنے پر اتفاق، حتمی منظوری جلد متوقع
پاکستان اور افغانستان کے جرگے کے ارکان کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور مثبت انداز میں اختتام پذیر ہوا، جس میں افغان فریق نے پاکستان کی شرائط پر اتفاق کرنے کے لیے اپنے اعلیٰ حکام سے منظوری حاصل کرنے کے لیے حتمی ’وقفے‘ کا مطالبہ کیا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پیر کو تقریباً 2 گھنٹے تک جاری رہنے والی جرگوں کی ملاقات افغان سرحد پر کسٹمز آفس (گمروک) میں ہوئی، جس میں پاکستانی وفد کے ارکان کے نام اور تعداد میں بار بار تبدیلی کی گئی۔
بعد ازاں پاکستانی وفد کے ذرائع نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ دونوں فریقین کے درمیان افغانستان کی جانب زیرو پوائنٹ پر سرحد کے بالکل قریب ایک متنازع چوکی کی تعمیر کے معاملے پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ افغان فریق کو بتایا گیا کہ زیرو پوائنٹ بارڈر کراسنگ کے قریب موجودہ ڈھانچے میں کسی بھی تبدیلی کے بارے میں ان کی کسی بھی مہم جوئی کا پاکستان کی جانب سے سخت جواب دیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ہم نے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی کو روکنے کی خواہش کا اظہار کیا اور افغان فریق نے طے شدہ سرحدی پروٹوکول پر مستقل طور پر عمل کرنے کی پختہ یقین دہانی کرائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈیورنڈ لائن کا معاملہ بھی بات چیت کے دوران بالواسطہ طور پر زیر بحث آگیا، کیونکہ افغان فریق نے بغیر کسی پیشگی شرط کے سرحد کھولنے پر زور دیا اور اس بات پر زور دیا کہ سرحد کھولنے کو سرحد کے دونوں طرف کسی بھی تعمیر سے مشروط نہیں کیا جانا چاہیے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان اس وقت گرما گرم بحث ہوئی، جب افغان وفد جس میں زیادہ تر افغان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے ارکان شامل تھے، نے اپنی جانب متنازع چیک پوسٹ کی تعمیر کو پاکستان کی جانب پھیلے ہوئے کسٹمز ٹرمینل کی تعمیر سے جوڑا، جو مرکزی سرحد زیرو پوائنٹ سے پاکستانی حدود میں ایک کلومیٹر سے زائد اندر واقع ہے۔
مزید معلوم ہوا کہ پاکستانی وفد نے اپنے افغان ہم منصبوں پر واضح کیا کہ سرحد کو دوبارہ کھولنے کا براہ راست تعلق دونوں ممالک کے درمیان عارضی جنگ بندی سے ہے، ممکنہ طور پر وسط جون تک دونوں اطراف کے اعلیٰ حکام مذکورہ مدت کے دوران سرحد پر سلامتی کے مسائل کا دوستانہ حل تلاش کریں گے، جب کہ سرحد پار ہر قسم کی جائز سرگرمیوں کے لیے سرحدی کراسنگ کو کھلا رکھا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان وفد کو بتایا گیا کہ جب تک ان کی حکومت سرحدی کراسنگ کے قریب متنازع چیک پوسٹ کی تعمیر کے منصوبے پر عمل پیرا ہے، سرحد کو دوبارہ کھولنے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکتی اور نہ ہی دونوں ممالک کے درمیان ٹوٹا ہوا اعتماد بحال ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغان وفد کو یاد دلایا گیا کہ پاکستان نے ان کی جانب سے تزئین و آرائش یا کسی توسیع پر کبھی اعتراض نہیں کیا، جب کہ پاکستان نے افغانستان کی جانب سے طورخم سرحد پر شمشاد سر (افغانستان میں واقع پہاڑ کی چوٹی) کے اوپر ایک اونچی سیکیورٹی چیک پوسٹ کی تعمیر نو پر بھی خاموشی اختیار کی تھی۔
تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات مثبت انداز میں ختم ہوئی اور افغان فریق نے متنازع چیک پوسٹ پر تعمیراتی کام روکنے اور ڈھائی ماہ کی جنگ بندی کے حوالے سے اپنے اعلیٰ حکام سے مشاورت کے لیے مزید وقت کی درخواست کی، اس دوران سرحد کھلی رہے گی۔
تاہم، پاکستانی حکام میں جرگہ مندوبین کے ناموں اور تعداد میں بار بار تبدیلی پر کچھ تلخی پائی گئی اور خیبر چیمبر کے ارکان نے اپنے ’پسندیدہ‘ افراد کو مندوبین میں شامل کرنے کے لیے دباؤ کو بطور ہتھکنڈا استعمال کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ خیبر چیمبر کے زیادہ تر نامزد امیدوار ناتجربہ کار اور موجودہ سرحدی مسئلے سے مکمل طور پر لاعلم ہیں، جب کہ سیکیورٹی حکام نے بھی ان میں سے کچھ نامزد افراد کے ناموں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ قبائلی روایات اتنے لمبے جرگے کی تشکیل کی اجازت نہیں دیتیں، کیونکہ ایک بڑا جرگہ ’ہجوم‘ بن جاتا ہے اور اس پر قابو پانا بھی مشکل ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ خیبر چیمبر کے رکن قائدانہ کردار ادا کرنا چاہتے تھے، کیونکہ افغان فریق بھی بنیادی طور پر افغان چیمبر آف کامرس کے ارکان پر مشتمل تھا۔